سچ خبریں:آج شام ایک ایسی حالت میں اپنی علاقائی اور عرب پوزیشن دوبارہ حاصل کر رہا ہے جبکہ واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی اور معاشی جنگ کے ہتھیاروں سے اس ملک کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔
عرب لیگ سے شام کی رکنیت معطل کیے جانے کے 12 سال بعد 7مئی 2023 کو اس یونین نے دمشق کی نشست اسے واپس کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے اس تاریخ سے اپنے تمام اجلاسوں اور اس سے وابستہ اداروں میں شامی حکومت کے وفود کی شرکت دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
عرب ممالک کا شام میں واپسی کا مقابلہ
عرب لیگ کے بیان میں سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2254 کے مطابق شام کے بحران کو بتدریج حل کرنے کے لیے عملی اور موثر اقدامات کرنے اور اس ملک کے عوام کو انسانی امداد فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جبکہ دمشق نے بھی عرب لیگ کے فیصلوں کو قبول کیا اور اعلان کیا کہ خطے میں جو مثبت بات چیت ہو رہی ہے وہ تمام ممالک کے مفاد میں اور پورے خطے کے مفادات میں اور اس کے استحکام، سلامتی اور خوشحالی کا باعث ہوگی جبکہ بہت سے عرب ممالک شام کو عرب لیگ میں واپس آنے سے روکنے کے لیے امریکہ کے دباؤ میں تھے، اس کے علاوہ گزشتہ مارچ میں امریکہ، انگلینڈ، فرانس، جرمنی اور اٹلی نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ وہ شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کی حمایت نہیں کرتے۔اس کے علاوہ، امریکہ نے شام کے صدر بشار الاسد کے مارچ میں یو اے ای کے دورے کو مایوس کن قرار دیا اور کہا کہ الاسد کو دعوت دینا انہیں قانونی حیثیت دینے کی کوشش تھی،اس وقت امریکہ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ شام کے خلاف پابندیاں نہیں اٹھائے گا اور اس وقت تک اس ملک کی تعمیر نو کی حمایت نہیں کرے گا جب تک شامی حکومت اقوام متحدہ کی قرارداد کی بنیاد پر سیاسی حل پر راضی نہیں ہو جاتی لیکن پچھلے دو سالوں سے ہم نے عرب ممالک کا شام میں بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ اتحاد اور اس ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا مقابلہ دیکھا ہے جبکہ انہیں ممالک نے ایک دہائی قبل امریکہ کے حکم اور پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے شام کو تنہائی اور محاصرے میں ڈالا اور اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے، اب بشار الاسد کی حکومت کو کیوں تسلیم کر رہے ہیں؟ اور اس سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
شام کو تقسیم کرنے کے امریکی منصوبے کو مزاحمت نے کیسے ناکام بنایا؟
جس وقت شام میں باغیوں اور دہشت گرد گروہوں بشمول داعش کے لیے امریکہ کی جامع حمایت جاری تھی،اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت میں 2011 میں شام کے بحران کے آغاز سے ہی مزاحمت بلاک اس ملک کی حکومت کی دعوت پر مسلح دہشت گردوں جن میں سے زیادہ تر غیر ملکی تھے، کے خلاف لڑنے کے لیے مشیر کی حیثیت سے میدان میں اترا تاکہ شامی حکومت کے خاتمے اور دہشت گرد گروہوں نیز ان کے علاقائی اور بین الاقوامی حامیوں کے ہاتھوں اس ملک کی تباہی کو روکا جا سکے،دمشق سینٹر فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ بسام ابو عبداللہ نے اس سلسلے میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے دہشت گردی اور مسلح انتہا پسند قوتوں کے خلاف شامی قوم اور حکومت کی جدوجہد اور فتوحات میں فیصلہ کن اور اسٹریٹجک کردار ادا کیا،انہوں نے شام کے لیے ایران کی سیاسی، فوجی، اقتصادی اور میڈیا کی حمایت کے سلسلے میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے 2011 میں شام کے بحران کو ختم کرنے کے لیے سیاسی حل پیش کیا اور دہشت گردی اور دہشت گرد گروہوں سے مقابلہ کیا اور اس راہ میں انہوں نے شہید بھی دیے ہیں۔
جنرل سلیمانی، داعش کے خلاف جنگ میں شامی عوام کے ہیرو
دہشت گردی کے خلاف فتح میں شہید لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کا ناقابل تلافی کردار اور شام میں ان کی قربانیاں بھی ایک ایسی بات ہے جس کا اعتراف دوست اور دشمن سب کرتے ہیں،اس بنا پر دو واقعات کو شام میں جنرل سلیمانی کی کمان میں اہم کاروائیوں کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے:
– حلب شہر کو آزاد کرانے کے لیے آپریشن، جو شامی مسلح اپوزیشن بالخصوص جبہۃ النصرہ، احرار الشام اور جیش الفتح اتحاد کے دارالحکومت کے طور پر جانا جاتا تھا۔
۔ داعش کے روحانی دارالحکومت دیر الزور شہر کو آزاد کرانے کے لیے آپریشن، جو موصل اور رقہ کے شہروں کا کنٹرول داعش کے کنٹرول سے نکالے جانے کے بعد مغربی ایشیا میں اس گروہ کے زیر قبضہ سب سے اہم شہر کے طور پر جانا جاتا تھا۔
عربوں نے شام کو واپس لانے کے بارے میں کیوں سوچا؟
علاقائی مساوات کی تبدیلی اور شام کی حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مزاحمت کے محور میں آنے کے بعد امریکی محور کی تمام عسکری، سیاسی اور اقتصادی سازشوں کا مقابلہ کرنے اور اپنی سرزمین کے ایک بڑے حصے کو دہشت گردوں اور غیر ملکی حملہ آوروں کے چنگل سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئی، تاہم 2018 سے یہ آثار نظر آرہے تھے کہ عرب حکام شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے خواہشمند ہیں، اس سلسلہ میں متحدہ عرب امارات پہلا ملک تھا جس نے اس سلسلے میں عملی قدم اٹھایا اور دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولا، اس کے بعد، ہم نے دوسرے عرب ممالک جیسے کہ اردن، مصر، حتیٰ سعودی عرب کی طرف سے شامی حکومت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے بہت سی کوششیں دیکھی ہیں۔ وہ کوششیں جو اس سال خطے میں تیز رفتار تبدیلیوں کے بعد اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔
عربوں کی شام کی واپسی پر امریکہ کی ناراضگی
شام کی عرب لیگ میں واپسی پر مبنی معاہدے کا اعلان کیے جانے کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ اس وقت دمشق عرب لیگ میں اپنی نشست دوبارہ حاصل کرنے کا لائق نہیں ہے، تاہم ایمن عبدالوہاب نے اس امریکی موقف کے بارے میں کہا کہ یہ واضح ہے کہ واشنگٹن عرب لیگ میں شام کی واپسی کا خیرمقدم نہیں کر سکتا اس لیے کہ شام کے معاملے کے حوالے سے جو صورتحال پیش آئی ہے اس کا اسرائیل پر منفی اثر پڑتا ہے، دوسری جانب شام کے معاملے میں تل ابیب کی مداخلت اور یوکرین روس جنگ ماسکو کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت کو متاثر کرتی ہے۔
نئے عرب مساوات میں شام کیوں جیت گیا؟
یہ جو کئی تجزیوں میں کہا جاتا ہے کہ عرب لیگ میں واپسی کو شام کی فتح سمجھا جاتا ہے،اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران شامی حکومت اور قوم کا مقصد صرف عرب لیگ میں اپنی نشست دوبارہ حاصل کرنا تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پچھلی دو دہائیوں میں عرب لیگ اپنے رکن ممالک کے مسائل اور بحرانوں کو حل کرنے کے لیے ایک عرب ادارے سے بڑھ کر کچھ نہیں کر سکے اس لیے کہ اب تک یہ ادارہ امریکہ سے تھا جو اس ملک کے حکم پر چل رہا تھا، لیبیا کی جنگ، شام کے بحران اور عراق پر امریکی قبضے وغیرہ کے حوالے سے عرب لیگ کی اسٹریٹیجک غلطیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔