سچ خبریں:حالیہ دنوں میں جنین میں پیش آنے والے واقعات اور پھر مغربی کنارے کے شمال میں فلسطینی مجاہدین کے انوکھے اندازمیں فائرنگ نے صیہونیوں کو چونکا دیا ہے۔
مغربی کنارے کے شمال میں واقع شہر جنین پر صیہونی افواج کے بڑے پیمانے پر حملے کے دوران جو متعدد بکتر بند گاڑیوں کو استعمال کرتے ہوئے کیا گیا، صیہونیوں کے لیے چونکا دینے والے واقعات پیش آئے۔ اس بڑے حملے کے دوران، صہیونی فوج کو حالیہ برسوں میں مغربی کنارے کے خلاف اپنے حملوں کے مطابق توقع تھی کہ انہیں فلسطینی مجاہدین کی طرف سے فائرنگ یا دیسی ساختہ بم پھینکنے کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے بچ کر اپنے مشن کو کامیابی سے پورا کر سکیں گے لیکن صیہونیوں کو جس چیز نے چونکا دیا وہ مجاہدین کی جانب سے سڑک کے کنارے نصب طاقتور بموں کا استعمال تھا، جس سے متعدد صیہونی فوجی زخمی ہوئے اور ان کی کئی بکتر بند گاڑیاں ناکارہ ہو گئیں، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی تھی، یاد رہے کہ منگل کی شام (جنین میں فلسطینی مجاہدین کی کامیاب کاروائی کے ایک دن بعد) متعدد فلسطینی نوجوانوں نے مغربی کنارے کے شمال میں نابلس اور رام اللہ کے درمیان واقع صہیونی بستی "عیلی” میں گھس کر ایک انوکھی کاروائی میں فائرنگ کر کے چار صیہونیوں کو ہلاک کر دیا۔
جنین میں کیا ہوا؟
فلسطینی ذرائع نے اعلان کیا کہ پیر کی صبح صہیونی فوجیوں نے جنین کیمپ کے اطراف الحدف اور الجبریات کے محلوں پر حملہ کیا اور گاڑیوں اور طبی عملے کو جائے تصادم تک پہنچنے سے روک دیا۔ ان جھڑپوں کی شائع شدہ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کا ایک سنائپر، جو جنین کیمپ میں ایک فلسطینی شہری کے گھر کے اوپر پہنچ گیا، مزاحمتی فورسز کی گولیوں کی بارش کی زد میں ہے۔
مزید:جنین آپریشن میں استقامتی تحریک کا انوکھا انداز
بڑے بڑے دعوے کرنے والی صیہونی فوج کو زبردست فوجی دھچکا
عبرانی میڈیا نے اس واقعے کو چونکا دینے والا قرار دیتے ہوئے جنین میں پیش آنے والے واقعات کو تکلیف دہ، غیر معمولی اور انتہائی خطرناک قرار دیا،صیہونی فوجی تجزیہ نگار امیر بوخبوت نے اس سلسلے میں کہا کہ جنین پر اگلا حملہ اسرائیلی افواج کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہوگا،تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انٹیلی جنس ادارے اور اسرائیلی فوج کو فلسطینیوں کی طاقت کا علم کیسے نہیں ہوا؟ والہ نیوز کے فوجی تجزیہ کار نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت کے ہیلی کاپٹروں نے جنین میں مجاہدین کے گھیرے میں پھنسے فوجیوں کو بچانے کے لیے اس علاقے پر کئی میزائل داغے جو دوسرے انتفاضہ کے بعد (تقریباً 20 سال پہلے) پہلی بار ہوا۔
یہ بھی:جنین میں فلسطینی مجاہدین کی فائرنگ
واضح رہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے سڑک کنارے نصب بموں نے صیہونی حکومت کی بکتر بند گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچایا ہو ،تاہم اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی کنارے میں میں مزاحمتی گروہوں کے پاس ہیں کافی طاقتور بم موجود ہیں جس نے صیہونیوں کو چونکا دیا ہے نیز صہیونی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے ہتھیاروں کے حوالے سے ایک غیر معمولی اور بے مثال واقعہ قرار دیا، صیہونی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو پیچیدہ قرار دیا ہے جو صہیونی فوج کے لیے بھی بہت تکلیف دہ ہے، والہ ویب سائٹ نے بتایا کہ جنین میں فوجیوں کے زخمی ہونے کے بعد صہیونی فوج اپاچی ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر مجبور ہوئی جبکہ فلسطینی مجاہدین اس ہیلی کاپٹر پر بھی فائرنگ کر رہے تھے ،تاہم آخر کار یہ ہیلی کاپٹر اپنے دفاع کو فعال کرتے ہوئے اپنا مشن مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
جب نقلی زرہ ٹوٹ گئی!
مغربی کنارے کے شمال میں واقع شہر جنین پر صہیونی فوج کے حالیہ حملے کے دوران فلسطینی مزاحمت کاروں کی جوابی کاروائی سے صیہونی حکام حیران رہ گئے،اس کاروائی میں صیہونی فوج کی متعدد بکتر بند گاڑیاں جنہیں ٹائیگراور لیوپارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، کو پہلی بار ناکارہ بنا دیا گیا اور صہیونی ان گاڑیوں کو تصاویر میں دکھانے پر مجبور ہوئے جنہیں انتہائی تکلیف دہ قرار دیا گیا ہے،صہیونی فوج 2020 سے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں پر حملوں کے دوران یہ گاڑیاں استعمال کر رہی ہے۔
جنین کے آپریشنز کے اسٹریٹجک اثرات
فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے ترجمان داؤد شہاب نے جنین میں مزاحمتی کاروائی کے سلسلے میں کہا کہ فلسطینی مزاحمت نے صیہونی حکومت کی طرف سے دی جانے والی فوجی کاروائی کی دھمکیوں پر ردعمل کا اظہار الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے کیا،انہوں نے مزید کہا کہ یہ رد عمل ان بموں کے ذریعہ ہوا جو پہلی بار استعمال ہوئے ہیں لہذا جنین کیمپ میں جو کچھ ہوا وہ صہیونی قابضین کے لیے ہر لحاظ سے صدمہ تھا اس لیے کہ فلسطینی مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے تمام علاقائی اور سکیورٹی اجلاس ناکام ہو چکے ہیں اور صہیونی دشمن مغربی کنارے میں مزاحمت کے شعلے کو بجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
خلاصہ کلام
جنین میں جو کچھ ہوا اور صہیونی قصبے عیلی (نابلس اور رام اللہ کے درمیان) میں چار صیہونیوں کی ہلاکت کے ساتھ حالیہ فائرنگ آپریشن اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ مغربی کنارے کا کنٹرول مکمل طور پر ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے،اس سے قبل مغربی کنارے کے حوالے سے پیش کیے گئے تجزیوں میں ہم نے نشاندہی کی ہے کہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مغربی کنارے میں مجاہدین صیہونی فوجیوں اور آباد کاروں سے صفر کے فاصلے پر ہیں۔ اور کسی بھی آپریشن کے ساتھ بھاری یا ہلکے ہتھیاروں کا استعمال صیہونیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ان واقعات نے مغربی کنارے کی صورتحال کے حوالے سے صہیونی قابضین کے زہنوں کو مکمل طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور انہیں مغربی کنارے کے شمال میں (جنین اور نابلس کے مرکز) میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے،تاہم اگرایسا ہوتا ہے تو فلسطینی مزاحمت یقینی طور پر اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدا میں اترے گی جس کے بعد مستقبل کے واقعات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہو گا کیونکہ فلسطینی اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑنے کے لیے تیار ہیں ،کون جانتا ہے، ہو سکتا ہے کہ مغربی کنارے کے شمال میں اس صہیونی فوجی آپریشن سے فلسطین کی آزادی کی آخری جنگ شروع ہو جائے۔