فلسطینی تجزیہ کار کی نظر میں شہید سلیمانی

سلیمانی

سچ خبریں:فلسطینی تجزیہ کا کہنا ہے کہ اگر میری جنرل قاسم سلیمانی سے ملاقات ہوتی تو میں ان سے پوچھتا کہ ایک انسان ہوتے ہوئے وہ ایمان کے اس درجے تک کیسے پہنچے اور ان پیچیدہ اور مشکل حالات میں اسلامی ممالک اور امت مسلمہ کی حفاظت اور ان کی کامیابی کے لیے ان تمام اعمال اور کوششوں کو انجام دینے کے قابل کیسے ہوئے؟

یاد رہے کہ 13 جنوری 2018 کو امریکی دہشت گردانہ کارروائی جس کے نتیجہ میں ایرانی قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی عراقی عوامی فورسز الحشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس کی شہادت ہوئی، کے فورا بعد امریکی ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں جماعتوں کے سیاسی حلقوں میں احتجاج اور تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

امریکہ کے مختلف گروہوں میں فوری طور پر یہ سوال اٹھنے لگا کہ امریکی حکومت کے ہاتھوں ایک ایرانی جنرل اور ایک عراقی عہدیدار کے قتل کی وجہ کیا تھی؟ وائٹ ہاؤس کے عمومی جوابات اور جھوٹ نے اس دہشت گردانہ کارروائی کے بارے میں حساسیت کو مزید ہوا دی، دوسری جانب عین الاسد میں امریکی قابض فوج کے اڈے پر اسلامی جمہوریہ ایران کے راکٹ حملے اور امریکی حکومت کی جانب سے ان حملوں میں ہونے والے حقیقی جانی نقصان کے بارے میں معلومات منظرعام پر نہ لائے جانے نے واشنگٹن اور دیگر امریکی فوجی حلقوں میں شدید غم و غصے کو جنم دیا، جیسا کہ "ویٹرنز آف فارن وارز ایسوسی ایشن” نے ایک بیان جاری کیا جس میں ریاستہائے متحدہ کے صدر سے عین الاسد بیس پر ایران کے میزائل حملے میں اس ملک کے فوجیوں کی ممکنہ ہلاکتوں اور زخمیوں کو کم اہمیت نہ دینے پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گایا،اس سلسلے میں سچ خبریں نیوز ایجنسی نے غزہ میں مقیم فلسطینی قلمکار اور سیاسی ماہر حسن لافی کا انٹرویو لیا۔

سچ خبریں : آپ کے نقطہ نظر سے، آپ شہید سلیمانی کا تعارف کیسے کرتے ہیں؟
لافی: جنرل قاسم سلیمانی کو اسلام، جہاد اور فلسطین سے الگ نہیں کیا جا سکتا، شہید سلیمانی ان مجاہدین میں سے ایک ہیں جو فلسطین کو اپنا اصل ہدف سمجھتے تھے، امریکہ کے ہاتھوں ان کی شہادت مشرق وسطیٰ کو تقسیم کرنے اور مزاحمت کے محور ممالک کو تباہ کرنے کے وائٹ ہاؤس کے منصوبے کی ناکامی کی وجہ سے ہے، جنرل قاسم سلیمانی نے مشرق وسطیٰ کو تقسیم ہونے سے بچایا۔
سچ خبریں: آپ کے خیال میں امریکیوں نے جنرل سلیمانی کو کیوں قتل کیا؟
لافی: امریکی حکام کی جانب سے جنرل قاسم سلیمانی کا قتل ان کے ہاتھوں مشرق  وسطیٰ کو تقسیم کرنے، مزاحمتی محور ممالک کو تباہ کرنے اور مشرق وسطیٰ کے سماجی تانے بانے میں تکفیری دہشت گرد قوتوں کو مسلط کرکے خطہ کے امن و سلامی کو تباہ کرنے کے امریکی منصوبے کو ناکام بنائے جانے کی وجہ سے تھا ، جنرل سلیمانی نے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا دیا جس سے خطے کی سلامتی اور سماجی امن کو نقصان پہنچنے والا تھا اور خطے میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کو اپنی تمام پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت فراہم کرنے کے لیے سیاسی اور سکیورٹی افراتفری کا دروازہ کھلنے والا تھا، اس امریکی منصوبے کا مقصد خطے کی صلاحیتوں کو تباہ کرنا اور مزاحمت کی بقا کو ختم کرنا ہے۔

سچ خبریں: آپ کی رائے میں، کیا جنرل سلیمانی کا قتل، جیسا کہ مغربی میڈیا دکھاتا ہے، اس وقت کے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ذاتی فیصلہ تھا؟
لافی: جب ان وجوہات کے بارے میں بات کی جائے جس کی وجہ سے امریکہ نے جنرل سلیمانی کو قتل کیا تو اسرائیل کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس فیصلے میں ٹرمپ انتظامیہ کے ملوث ہونے میں صیہونی حکومت کا کلیدی کردار تھا، اسرائیل جنرل سلیمانی کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا تھا، وہ مزاحمتی محور کے محاذوں سے اسرائیل کو اپنے گھیرے میں لینے والی آگ کے حلقوں کو شعلہ ور کرنے اوراس کا انتظام کرنے والے تھے، ان متعدد محاذوں کی تشکیل نے صہیونی غاصبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے میدان بنائے۔

سچ خبریں: شہید قاسم سلیمانی نے خطے میں کون سے اہم ترین اقدامات کیے؟
لافی: میں سمجھتا ہوں کہ شہید سلیمانی نے مشرق وسطیٰ کے خلاف بین الاقوامی سازش کو شکست دینے میں کلیدی کردار ادا کیا کیونکہ وہ داعش کی شیطانی قوتوں اور تکفیریوں کو شکست دینے کی جنگ کے حقیقی رہنما تصور کیے جاتے تھے، خطے کے امن اور استحکام کو تباہ کرنے کے مقصد سے داعش کو لایا گیا تھا شہید نے وہ امن و استحکام واپس لوٹا دیا ، انہوں نے خطے اور اس کے لوگوں کو تقسیم کے اس منصوبے سے محفوظ رکھا جس پر امریکیوں اور ان کے اتحادیوں نے عمل درآمد کیا تھا نیز جنرل سلیمانی مشرق وسطی کے علاقے میں صیہونی امریکی منصوبے کے خلاف مزاحمتی قوتوں کو جمع کرنے اور عقائد اور فرقوں سے بالاتر ہو کر مزاحمت کا محور بنانے میں کامیاب رہے،اس طرح اسرائیل اور امریکہ اب خطے میں فیصلہ سازی اور تعین کرنے والے عوامل پر غالب نہیں رہے۔
سچ خبریں: جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے فوراً بعد ٹوئٹر اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا نے ان کی تصاویر اور ویڈیوز کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا، آپ کے خیال میں ان حرکتوں کی وجہ کیا ہے؟
لافی: سوشل میڈیا سے جنرل سلیمانی کی تصاویر اور ویڈیوز کو ہٹانا ایک سامراجی پالیسی ہے جو اسلامی مزاحمت کی علامتوں کو عوام سے چھپانے کی کوشش کرتی ہے، مزاحمت کی علامتیں مسلم اقوام کے نوجوانوں کی تاریخی یادداشت کا حصہ ہیں تاکہ ان کی پیروی نمونۂ عمل بن سکے، اس کے علاوہ امریکہ اور اس کے اتحادی ایک انتھک مجاہد کی حیثیت سے جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں تاریخ کو مسخ کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں، وہ کسی بھی ایسی کوشش کو دبا دیتے ہیں جس سے اس شہید کمانڈر کا صحیح تعارف ہو، ایسے میں جہاں سوشل میڈیا پر شہید سلیمانی کی تصاویر پر پابندی لگا دی گئی ہے، یہ سوشل میڈیا اپنی زیادہ سے زیادہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان کی منفی تصویر پیش کرنے اور ان لوگوں کو گمراہ کرنے کا پلیٹ فارم بن چکے ہیں جو انہیں اچھی طرح نہیں جانتے ہیں۔

سچ خبریں: اگر آج جنرل قاسم ہمارے درمیان ہوتے اور آپ ان سے ملنے جاتے تو آپ ان سے کیا سوال یا درخواستیں کرتے؟
لافی: اگر جنرل سلیمانی زندہ ہوتے تو میں میدان جنگ میں ان سے ملنے کی کوشش کرتا، جنرل سلیمانی جیسے مزاحمت کے محور کے وفادار کمانڈر ، فلسطین اور اس کے کاز کے لیے لڑنے والے کمانڈر سے ملاقات میں میرے لیے سب زیادہ اہم بات یہ تھی کہ ان سے پوچھتا زیادہ اہم تھی کہ میں ان سے پوچھتا کہ ایک انسان ہوتے ہوئے وہ ایمان کے اس درجے تک کیسے پہنچے اور ان پیچیدہ اور مشکل حالات میں اسلامی ممالک اور امت مسلمہ کی حفاظت اور ان کی کامیابی کے لیے ان تمام اعمال اور کوششوں کو انجام دینے کے قابل کیسے ہوئے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے