سچ خبریں: ممتاز فلسطینی تجزیہ نگار نے اس بات پر زور دیا کہ اگر غزہ کی پٹی میں زمینی جنگ ہوتی ہے تو صیہونی حکومت کی تباہی کا پیش خیمہ ہو گی اور کابل سے امریکیوں کے فرار کا منظر تل ابیب کے ہوائی اڈے پر دہرایا جائے گا۔
علاقائی اخبار رائے الیوم کے ایڈیٹر اور ممتاز فلسطینی تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے فلسطین کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں اپنے نئے کالم میں لکھا ہے کہ غزہ کی پٹی پر قابض حکومت کے جرائم تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکے ہیں اور اس حکومت کی واحد کامیابی تقریباً 5000 فلسطینی شہریوں کا قتل عام ہے جن میں اکثر خواتین اور بچے ہیں جبکہ صیہونی غزہ میں مزاحمت کے بنیادی ڈھانچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی غزہ پر زمینی حملہ کرنے کی ہمت نہیں
غزہ کے عوام کو جبری بے گھر کرنے کی سازش کیوں ناکام ہوئی؟
عطوان نے مزید کہا کہ ان دنوں غاصب صیہونی حکومت نے غزہ کی پٹی کے محصور علاقوں پر اپنے فضائی حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے اور اس حکومت کی وحشیانہ جارحیت کی وجہ سے ہر روز تقریباً 300 فلسطینی شہری شہید ہو رہے ہیں،صہیونی فوج کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ یہ جرائم دوسرے مرحلے یا زمینی حملے کا پیش خیمہ ہیں،ایسا حملہ جسے دشمن نے نتائج کے خوف سے کئی بار ملتوی کیا ہے،ہم یہاں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قابض حکومت کے پاس جدید امریکی لڑاکا طیاروں جیسے F-15، F-16 اور F-35 اسٹیلتھ فائٹرز کی موجودگی کی وجہ سے مکمل فضائی کنٹرول ہے جو زمین پر نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیکن فلسطینیوں کی زمین پر اور اس کے نیچے جو مزاحمت، عزم اور ہمت ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے اور مزاحمتی مجاہدین دشمن کے زمینی حملے کے انتظار میں ہیں تاکہ اسے بری طرح شکست دی جائے،فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کا منصوبہ جسے امریکہ اور اس کا بچہ اسرائیلنافذ کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں نیز جسے غزہ کے خلاف ان کی جنگ کا سب سے اہم محور سمجھا جاتا ہے، بری طرح ناکام ہو گیا اور امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کی اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عرب ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔
اس امریکی صیہونی سازش کی ناکامی کی دو اہم وجوہات ہیں:
– سب سے پہلے، مصری حکام نے غزہ کی پٹی سے صحرائے سینا میں 20 لاکھ فلسطینی شہریوں کی منتقلی کو مسترد کر دیا کیونکہ یہ مصر کے لیے خودمختاری کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور مصری صحرائے سینا کو اپنے لیے مقدس سرزمین سمجھتے ہیں جسے وہ کبھی بھی اربوں ڈالر میں بیچنے کو تیار نہیں ہیں،اس کے علاوہ، زمین بیچنا مصریوں کے لیے بڑی شرم کی بات ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ غزہ کے لوگوں کی غالب اکثریت 1948 میں نکبت کے منظر نامے کی عدم تکرار اور عرب فوجوں اور حکومتوں نیز ان کے وعدوں پر مکمل عدم اعتماد کی وجہ سے کبھی بھی اپنی سرزمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں ہجرت کرنے پر آمادہ نہیں ،ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ غزہ کے شمال سے جنوب کی طرف آئے ہوں لیکن وہ کبھی مصر کی سرحدوں پر نہیں گئے، قابضین کے وحشیانہ جرائم میں سے کوئی بھی غزہ کے عوام کو ان کے وطن سے الگ نہیں کر سکا ، ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں کے کھنڈرات میں رہنے کو ترجیح دی اور شہادت کا راستہ اختیار کیا۔
مزاحمت کے خوف سے آبادکار بھاگ گئے
اس کالم کے مطابق، اگر عبرانی اخبارات کی طرف سے شائع ہونے والی میڈیا رپورٹس درست ہیں تو بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ غزہ کی پٹی کے آس پاس کے قصبوں اور شہروں سے یہودی تارکین وطن کی میزبانی کے لیے بحیرہ احمر کے کنارے ایلات میں ایک خیمہ شہر قائم کر رہی ہے تاکہ سدیروت، عسقلان اور اشدود جیسے شہروں کے لوگ میں مزاحمتی حملوں سے بچنے کے لیے وہاں منتقل ہو سکیں،ایسا لگتا ہے کہ یہ رپورٹس درست ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قابضین نے فلسطینی عوام کے لیے جو سازش تیار کی تھی وہ انہیں کے گلے پڑ گئی ہے، یہ غزہ کے عوام کی مزاحمت اور استحکام کی سب سے واضح کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
عبدالباری عطوان نے اپنا تجزیہ جاری رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے جنوب اور شمال میں صہیونی آباد کاروں کو بے گھر کر دیا گیا ہے اور مقبوضہ الجلیل میں بڑی تعداد میں بستیوں کو خالی کر دیا گیا ہے، اس دوران امریکہ مشرقی بحیرہ روم میں اپنی فوجی تیاری بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس نے غزہ کی پٹی میں سرنگوں کو اڑانے کے لیے اپنے طیارہ بردار جہاز، دسیوں ٹن ہتھیار اور بھاری بم تیار کر لیے ہیں،امریکی وزیر جنگ لائیڈ آسٹن نے خطے میں اپنی فوجی پوزیشنوں کو مضبوط کرنے اور TOAD نیز پیٹریاٹ سسٹمز کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سب سے پہلے امریکہ مقبوضہ فلسطین میں یہودی آباد کاروں کی حفاظت اور انہیں یقین دلانا چاہتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ عراق، اردن اور شام میں امریکی اڈوں کی حفاظت کرنا چاہتا ہے جو آئے روز میزائل حملوں کی زد میں آ رہے ہیں، اب اس جنگ میں مزاحمتی تحریک خاص طور پر حزب اللہ، یمن کی انصار اللہ اور عراق کی حشد الشعبی کے داخل ہونے اور اس کے دائرہ کار میں توسیع کے بارے میں امریکیوں کے خوف میں اضافہ ہوا ہے۔
غزہ جنگ میں امریکہ اور اسرائیل کے تمام مقاصد ناکام ہو گئے
اس فلسطینی تجزیہ نگار نے کہا کہ ہم جو نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ غزہ کی جنگ اور اس کے بعد کے واقعات کے بارے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے اندازے نہ صرف غلط تھے بلکہ مکمل طور پر ناکام بھی تھے اور علاقہ میں اس کے قابض حکومت اور امریکی مفادات کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں ،حماس تحریک، جسے نیتن یاہو نے بار بار تباہ کرنے کا وعدہ کیا ہے اب بھی میدان میں اور اپنی سرنگوں میں مضبوطی سے قائم ہے نیز تل ابیب پر راکٹوں کی بارش کر رہی ہے،اس کے علاوہ غزہ کے عوام کو صحرائے سینا میں منتقل کرنے کی امریکہ اور اسرائیل کی مذموم سازش بھی ناکام ہو گئی۔
کابل سے امریکیوں کے فرار کا منظر تل ابیب کے ہوائی اڈے پر دہرایا جائے گا
اس تجزیے میں تاکید کی گئی ہے کہ غزہ کی پٹی میں قابضین کے انسانیت سوز جرائم اور اسپتالوں پر بمباری نیز بچوں کے قتل عام نے دنیا کے سامنے امریکہ، مغرب اور صیہونی حکومت کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے اور ان کے چہروں سے انسانی حقوق کا جھوٹا نقاب ہٹا دیا،اس تناظر میں ہم نے دیکھا ہے کہ دنیا کی رائے عامہ تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ علاقائی جنگ بہت قریب ہے، ایک ایسی جنگ جو امریکہ نہیں جیت سکے گا اور ہم تل ابیب کے ہوائی اڈے پر کابل ہوائی اڈے کا منظر(امریکیوں کے فرار) دوبارہ دیکھ سکتے ہیں۔
عبدالباری عطوان نے واضح کیا کہ شاید ان دنوں کچھ میڈیا میں سننے اور امریکی ایجنسی بلومبرگ کی طرف سے شائع ہونے والی سب سے عجیب بات یہ ہے کہ امریکی حکومت اور نیتن یاہو کی کابینہ کے درمیان غزہ کی پٹی میں حماس تحریک کے متبادل کے طور پر ایک عبوری حکومت کی تشکیل کی بات چل رہی ہے ،وہ زمینی حملے سے قبل اس بارے میں بات کررہے ہیں لیکن یہ سب ایک بیکار خواب ہ کیونکہ تمام شواہد یہ بتاتے ہیں کہ حماس کی حکومت غزہ میں اب بھی قائم رہے گی اور طوفان الاقصیٰ کی معجزانہ کاروائی نیز غزہ کے اطراف کے قصبوں پر حملے اور قابضین کو قابل قدر مادی اور جانی نقصان پہنچانے کے بعد اس تحریک کی قومی مقبولیت میں پہلے سے کہیں اضافہ ہے۔
غزہ میں زمینی جنگ اسرائیل کی تباہی کا پیش خیمہ ہو گی
اس تجزیے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر صرف ان لوگوں کی حکومت ہے جنہوں نے اس کا دفاع کیا اور اس کے راستے میں شہید ہوئے نیز قابض حکومت کی تذلیل ،غزہ میں جنگ طول پکڑے گی اور نیتن یاہو جس زمینی حملے کی دھمکیاں ہر روز دیتے ہیں وہ ایک ایسا جال ہے جو صہیونیوں کے لیے بچھایا گیا ہے اور اسرائیل کی تباہی کا آغاز ہوگا،غزہ کی پٹی شیروں کا ہیڈ کوارٹر ہے اور یہاں کے مزاحمتی جنگجو غزہ کے شہداء اور بچوں کے خون کا بدلہ ضرور لیں گے،اگر صیہونی حکومت کو علاقائی جنگ اور کثیر محاذ جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے جو بعید نہیں ہے، اسے ایک طویل شہری اور سرنگوں کی جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مزید پڑھیں: صیہونی غزہ پر زمینی حملہ کرنے سے کیوں ڈر رہے ہیں؟
اس تجزیے کے آخر میں قابضین کے لیے اس جنگ کے نقصانات اس حکومت کے ممتاز جرنیلوں کی پیش گوئی سے کہیں زیادہ ہوں گے،صیہونیوں کی شکست ایک ناگزیر حقیقت ہے،انہیں دو مرتبہ غزہ کی پٹی سے باہر نکالا گیا اور تیسری بار انہیں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور جنگجوؤں کے سرنگوں سے نکلنے اور صیہونیوں کی وحشت اور خوف کے مناظر اس بار زیادہ مضبوط شکل میں دہرائے جائیں گے،مزاحمتی گروہوں نے اپنی جنگی قوت کو پوری طرح سے تیار کر لیا ہے جو دشمن کے لیے بہت سے حیران کن ہو گی۔