سچ خبریں: عرب دنیا کے ممالک کے ساتھ شام کے تعلقات کی بحالی نے واضح طور پر ظاہر کیا کہ دمشق کو تنہا کرنے کے منصوبے کو شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
12 سال کی غیر حاضری کے بعد گذشتہ سال شام کی عرب لیگ میں واپسی ہوئی، بلاشبہ یہ واقعہ ایک حالیہ برسوں کے دوران شام سے متعلق اہم ترین سیاسی صورتحال تھا، موسمیاتی اجلاس میں شام کے صدر کی موجودگی کے لیے متحدہ عرب امارات کی دعوت اور سعودی عرب میں بشار الاسد کی موجودگی کے لیے بن سلمان کی جانب سے دعوت نامہ موصول ہونا شام اور عرب ممالک کے تعلقات کی تاریخ میں ایک نئے دور کے آغاز تھا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ، انگلینڈ، فرانس اور جرمنی 13 سال سے شام کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟
عرب لیگ کے ارکان کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد کی موجودگی اور وزراء کے ساتھ ان کی ملاقات نے ایک ایسے راستے کی نشاندہی کی جو بلاشبہ شام کے معاملے میں ایک اہم پیش رفت تھی، شام کے صدر بشار اسد جدہ پہنچے اسی دن اقوام متحدہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ جدہ سربراہی اجلاس میں بشار الاسد کی موجودگی سیاسی عمل کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوگی۔
اس کے علاوہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ہم شام کے صدر بشار الاسد کی موجودگی سے بہت خوش ہیں اور ہمیں امید ہے کہ عرب لیگ میں شام کی واپسی شام کی سلامتی کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرے گی اور اس ملک میں بحران کے خاتمے کا باعث بنے گی،ان تمام سالوں کے جھگڑے اور تنازعات جن سے ہماری قومیں دوچار ہوئیں ہمارے لیے کافی ہیں،اس کے علاوہ جمہوریہ تیونس کے صدر قیس سعید، الجزائر کے وزیر اعظم ایمن بن عبدالرحمن اور دیگر عرب رہنماؤں نے جدہ میں اسد کی موجودگی کی گرمجوشی سے تعریف کی، عمان کے نائب وزیر اعظم اسد بن طارق آل سعید نے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ شام دوبارہ عرب راستے کی روشنی کا مقام حاصل کر لے گا۔
مشرق وسطیٰ کے امور کے تجزیہ کار اور سنچری انٹرنیشنل کے ماہرین میں سے ایک آرون لنڈ کا خیال ہے کہ شام کی عرب لیگ میں واپسی شامی حکومت کے لیے ایک بڑی کامیابی اور فتح ہے، انہوں نے مزید کہا کہ شام خطے میں دوبارہ متحد ہو رہا ہے اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، اب دوسرے عرب رہنما پراعتماد ہیں کہ انہیں دمشق کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، تو آئیے مان لیں کہ یہ دمشق کی حکومت کی سیاسی فتح ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان جدہ میں ہونے والی ملاقات کی تصویر کو ایک اہم سفارتی پیش رفت کی تصویر کے طور پر کئی تجزیوں کا سامنا کرنا پڑا اور بیشتر تجزیوں میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ سعودی عرب اور دیگر عرب حکمرانوں کو شامی حکومت کی دیرینہ مزاحمت کا احترام کرنا چاہیے۔
بشار اسد اور بیت عربی
جدہ میں بشار الاسد کی سرکاری موجودگی کے باوجود اس سفر کے بارے میں کچھ منفی رویے بھی دیکھے گئے، دوسری باتوں کے علاوہ، قطر کے امیر نے جدہ میں بشار الاسد کی تقریر سے پہلے اجلاس چھوڑ دیا اور شامی صدر کی تقریر سننے سے انکار کر دیا لیکن بشار کی تقریر جو کہ ایک ہوشیار طریقے سے تیار کی گئی تھی، اس میں ایسے معانی اور جملے تھے جو ترکی اور قطر کے غلط موقف پر سوالیہ نشان لگاتے تھے، بشار الاسد نے اپنی تقریر میں واضح طور پر قطر کی ستم ظریفی کا تعارف کرایا اور اس بات پر زور دیا کہ عرب ممالک کو اندرونی معاملات میں مداخلت اور بحران پیدا نہیں کرنا چاہیے، انھوں نے کہا کہ شام ہمیشہ عرب دنیا کا رہے گا، یہ ضروری ہے کہ اندرونی معاملات کو ملکوں کے عوام پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ اپنے معاملات کو بہترین طریقے سے چلا سکتے ہیں۔
جدہ میں عرب لیگ کے اجلاس میں بشار الاسد کی تقریر میں استعمال ہونے والا سب سے اہم جملہ عربی ہاؤس تھا، انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ عرب لیگ کے چارٹر اور اس کے قانون کو تیار کیا جائے اور اس پر نظر ثانی کی جائے تاکہ یہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ہو، بیت عربی کو دوبارہ منظم کرنے کا ایک تاریخی موقع ملا ہے تاکہ کم سے کم غیر ملکی مداخلت سے اپنا گھر چلایا جا سکے۔
شامی صدر نے مداخلت پسندی کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو اندرونی معاملات کو اقوام پر چھوڑ دینا چاہیے اور ہمیں بیرونی مداخلتوں کی مخالفت کرنی چاہیے، مشترکہ عرب سرگرمیوں کے لیے ایک مربوط پالیسی اور شفاف طریقہ کار کی ضرورت ہے، عرب اتحاد اور مشترکہ تعاون کے نئے مرحلے کی طرف بڑھنے کے ساتھ امید بڑھ رہی ہے۔
سعودی عرب کا رویہ
عرب لیگ میں شام کی واپسی سے متعلق ایک اہم ترین مسئلہ سعودی عرب کے رویے کا جائزہ لینا ہے کیونکہ اس ملک نے شام کے بحران کے دوران متحدہ عرب امارات کے تعاون سے شامی اپوزیشن کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن آخر کار میدان کے معروضی حالات کو سمجھ کر اس نے اپنا نقطہ نظر بدل لیا، ریاض نے شام کے سلسلہ میں عرب ممالک کے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے سے متعلق مذاکرات میں اس مسئلے کے اصول کی مخالفت نہیں کی اور مختصر عرصے میں شام کے دو سیاسی وفود کی میزبانی ایک اہم پیش رفت تھی۔
عرب لیگ میں شام کی شمولیت کی راہ میں حائل رکاوٹ کو ہٹانے کے کچھ ہی دیر بعد سعودی عرب کے ایک سیاسی وفد نے غازی بن رافع العنزی کی سربراہی میں شام میں اس ملک کے سفارت خانے کو دوبارہ کھولنے کے عمل کا جائزہ لینے کے لیے دمشق کا سفر کیا اور اس کارروائی سے ظاہر ہوا کہ ریاض شام کے معاملے پر نقطہ نظر کے نئے مرحلے تک پہنچ گیا ہے۔
اس کے بعد ریاض اور دمشق نے تجارتی تعاون کو دوبارہ شروع کرنے اور دونوں فریقوں کے درمیان تجارتی توازن کو بڑھانے کے لیے کئی اقتصادی فورم قائم کرنے پر اتفاق کیا، یہ معاہدہ سعودی چیمبرز آف کامرس کے سربراہ حسن بن مجیب الحویزی کی ریاض میں شام کے چیمبرز آف کامرس کے سربراہ محمد ابوالہدی اللحام اور ان کے ہمراہ وفد کے ساتھ تجارتی کانفرنس کے موقع پر ہونے والی ملاقات میں طے پایا۔
امریکہ اور اسرائیل کو بھاری شکست
شام کی عرب لیگ میں واپسی کی اہمیت کے بارے میں بہت سے سیاسی تجزیوں کا مشترکہ نکتہ امریکہ اور صیہونی حکومت کی ناکامی ہے،امریکہ پہلا ملک تھا جس نے عرب لیگ کے ارکان کے فیصلے پر احتجاج کیا، امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا کہ اس ملک کا شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور وہ اس سلسلے میں وہ دوسروں کی بھی حمایت نہیں کرتا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے جدہ سربراہی اجلاس کے موقع پر کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ شام عرب لیگ میں واپس آنے کا مستحق نہیں ہے اور ہم نے یہ مسئلہ اپنے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ اٹھایا ہے، ہمیں شک ہے کہ بشار الاسد اپنے ملک کے بحران کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
Yediot Aharonot اخبار نے لکھا ہے کہ صیہونی حکومت شام کی عرب لیگ میں واپسی کے نتائج بالخصوص شام پر اس حکومت کے حملوں کے بارے میں فکر مند ہے، اس اخبار نے انکشاف کیا کہ شام کی عرب لیگ میں واپسی کے بعد اسرائیل نے عالمی برادری کو واضح پیغامات بھیجے ہیں، اس کے علاوہ اسرائیلی وزیر جنگ یوو گیلنٹ نے فوج کے کمانڈروں کے ساتھ ملاقات میں شام کے صدر بشار الاسد کی عرب دنیا میں واپسی کو ایک منفی پیش رفت قرار دیا جس کی وجہ سے اسرائیل شام پر ہوائی حملوں کا امکان کھو بیٹھا۔
مزید پڑھیں: ریاض: شام کی عرب لیگ میں واپسی سے خطے میں استحکام بحال ہوگا
شام کے ساتھ امریکی دشمنی کے تسلسل کے بارے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان میں خارجہ تعلقات کی کمیٹی نے شام کی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مقابلہ کرنے کے مسودے بھاری ووٹوں سے پاس کیا گیا،سیریئن امریکن کونسل اور امریکن کولیشن فار سیریا میں سیاسی منصوبہ بندی کے سربراہ محمد الا عانم اور امریکی سکیورٹی ماہرین کی ایک ٹیم نے شام اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر آنے سے روکنے کی کوشش کی اور واشنگٹن میں شام کے معاملات سرگرم 10 امریکی تنظیموں نے اس میدان میں کارروائی کی لیکن ان کی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں جو امریکی خارجہ پالیسی کی بڑی ناکامی تھی۔
بشار الاسد کے ایران، امارات، عمان اور روس کے دورے نیز ان کے سعودی عرب اور چین کے دو اہم دورے شام کی بین الاقوامی سیاسی منظر نامے پر واپسی کی علامت ہیں۔