سچ خبریں:طالبان نےافغانستان پر بین الاقوامی اتحاد کی 20 سالوں کی لشکر کشی کے دوران کیسے مزاحمت اور اب ہالی وڈ فلموں کی طرح میں اقتدار میں واپس آنے میں کامیاب رہے ہیں؟ کیا اس گروہ کے پاس کوئی خفیہ جادوئی طاقت ہے یا اسےکئی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد حاصل ہے ؟!
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم افغانستان اور طالبان کے اندرونی ڈھانچے کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس گروہ میں نہ کوئی راز ہے اورنہ اس کے پاس مافوق الفطرت طاقتیں ہیں، افغانستان ایک کثیر قبائلی معاشرہ ہے جو مندرجہ ذیل قبائل پر مشتمل ہے۔
پشتون آبادی کا 42 فیصد ہیں۔
تاجک آبادی کا 27 فیصد ہیں۔
ازبک آبادی کا 9 فیصد ہیں۔
جبکہ ہزارہ قبیلہ بھی اس ملک کی آبادی کا 9 فیصد بنتے ہے۔
افغانستان کی 74 فیصد آبادی پہاڑی علاقوں میں رہتی ہے جن میں دیہی اور دور دراز کے علاقوں بھی شامل ہیں جبکہ 26 فیصد شہروں میں رہائش پذیر ہیں، ازبک ملک کے شمال میں رہتے ہیں اور ہمیشہ سوویت اور امریکی حمایت یافتہ حکومتوں کی حمایت کرتے رہے ہیں، پشتون ، جو آبادی کی اکثریت پر مشتمل ہیں ، پہاڑوں اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے خانہ بدوش یا قبائل ہیں، ان میں لڑائی کا جذبہ ہے اور وہ جسمانی طور پر مضبوط ہیں، حکمتیار کے زیرقیادت حزب اسلامی ان نسلی گروہوں میں سے ہے نیز طالبان بھی انھیں میں سے ابھرےہیں۔
تاجک دوسرا بڑا نسلی گروہ ہے ، ان میں سے اکثر شہری ہیں ، اور جمعیت اسلامی پارٹی ، جس کی قیادت برہان الدین ربانی کر رہے ہیں، القاعدہ کے ہاتھوں قتل ہونے والے احمد شاہ مسعود جیسے اہم رہنما بھی تاجک تھے۔
ہزارہ کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقلیتی لوگ ہیں اور شیعہ ہیں،واضح رہے کہ 1970 اور 1980 کی دہائی میں امریکہ نے تاجکوں اور پشتونوں کو افغان حکومت اور سوویت یونین کے حمایت یافتہ جنگجوؤں سے لڑنے کے لیے سپورٹ کی جبکہ قبائل کو سعودی عرب اور کچھ خلیجی عرب ریاستوں کی مالی اعانت ملی جس کے نتیجہ میں پشتون قبائل مویشیوں اور زراعت کو چھوڑ کر میدان جنگ میں داخل ہوئے کیونکہ یہ ان کے لیے مالی طور پر بہت منافع بخش تھا، سوویت مشن کے خاتمے اور شیخوں اور امریکہ کی مالی اور مادی مدد کے خاتمے کے بعد ، ان قبائل کے مالی وسائل ختم ہو گئے اور حزب اسلامی نے تاجکوں ، ازبکوں اور ہزاروں کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ میں حصہ لیااور شہروں ، تجاوزات اور تجارت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
قابل ذکر ہے کہ افغانستان کی خانہ جنگی نےاس ملک میں تباہی مچا دی اور اس کے دو پڑوسیوں ایران اور پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ لاحق ہو گیا کیونکہ افغانستان دنیا میں ہیروئن کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ اور اسمگلنگ ، گروہوں اور ہتھیاروں کا مرکز بن چکا ہے، اس صورتحال کے تناظر میں ، پشتون قبائل کی طرف سے ایک نئی اور فعال تحریک شروع کی گئی تاکہ سیکورٹی قائم کی جا سکے، ایک مسلح تحریک جس کی قیادت اسلامی مدرسوں کے طلباء کر رہے تھے جو پاکستان سے امن و امان قائم کرنے نیز لوٹ مار کرنے والے گروہوں کے اخراج سے لڑنے کے لیے آئے تھے، یہ تحریک بعد میں طالبان کے نام سے مشہور ہوئی جس کو خانہ جنگی سے تنگ آنے والےپشتونوں کی جانب سے پذیرائی ملی۔
پچھلی صدی کے آغاز میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان تیزی سے ختم ہو گئے کیونکہ امریکہ پاکستانی انٹیلی جنس سروس کی ہم آہنگی ،تعلقات اور پیسے کے استعمال سے پشتون قبائل کو طالبان سے علیحدگی پر اکسانے میں کامیاب رہا تو اس جنگ میں طالبان تنہا رہ گئے، اب امریکی انخلاء کے بعد پشتون قبائل تاجکوں یا ازبکوں کو اقتدار نہیں دے سکتے ، جو ایک شہری اقلیت ہیں ، لہذا قبائل ملک پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ مل گئے اور طالبان اقتدار میں آگئے۔