صیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانا کیوں ہے؟

تعلقات

🗓️

سچ خبریں: ممالک اور خطے کے عوام کی اکثریت کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا سمجھوتہ کرنے والی حکومتوں کی پوزیشن کو متاثر کرے گا اور ان کی حکومت کی بنیادوں کو غیر مستحکم کرے گا۔

عرب ممالک اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا معاملہ گزشتہ ماہ ایک بار پھر سرخیوں میں لایا گیا،11 اکتوبر کو ایرانی حکام، اسلامی ممالک کے سفیروں اور وحدت کانفرنس کے مہمانوں کے ساتھ ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے ایک بار پھر صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے جوئے کو مکمل طور پر نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کچھ حکمرانوں اور اسلامی حکومتوں کی جانب سے صیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کو ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانے کے متراف قرار دیا، یہاں پر سوال یہ ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کا صیہونی حکومت کے ساتھ اسلامی ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں ایسا خیال کیوں ہے؟

یہ بھی پڑھیں: طوفان الاقصی کے بعد صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے منصوبے کا کیا ہوگا؟

القدس کی قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا آغاز ستمبر 2020 میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں ہوا جہاں پہلے مرحلے میں متحدہ عرب امارات اور بحرین اور پھر سوڈان اور مراکش نے اس قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کارروائی کی جس کے بعد گزشتہ ماہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس میں ایک بار پھر سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا معاملہ اٹھایا گیا۔

واضح رہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے تین نظریے ہیں:
ایک نظریہ یہ ہے کہ صیہونیوں کے ساتھ تعقات معمول پر آنے سے خطے میں زیادہ تعاون اور استحکام آئے گا۔
ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اس طرح کے سمجھوتے سے فلسطین کے لیے مزید امن و سلامتی پیدا ہوگی۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے پیش کیا گیا تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعقلقات معمول پر آنے سے نہ صرف فلسطین اور مغربی ایشیائی خطے میں مزید امن و سلامتی آئے گی بلکہ اس سے صیہونی حکومت کو فلسطین کے خلاف جرائم میں اضافے کا موقع مزید ملے گا۔

عملی طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کا نقطہ نظر اس طرح ثابت ہوا کہ صیہونی حکومت نے گذشتہ تین سالوں کے دوران فلسطینیوں کے خلاف کم از کم تین جنگیں چھیڑیں:
2021 میں سیف القدس کی جنگ، جو 11 دن تک جاری رہی۔
اسلامی جہاد کے خلاف 2022 میں 3 روزہ جنگ۔
غزہ کی پٹی کے خلاف موجودہ جنگ، جو 7 اکتوبر کو شروع ہوئی۔

فلسطین کے لیے تعلقات کو معمول پر لانے کے منفی اثرات سے قطع نظر، اس عمل سے ان ممالک کے لیے مثبت نتائج نہیں ہوں گے جو کئی وجوہات کی بنا پر اس سمجھوتے میں شامل ہونا چاہتے ہیںجو آیت اللہ خامنہ ای کی نظر میں ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانا ہے۔

اس سلسلے میں درج ذیل وجوہات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
1۔ علاقے کے عوام کی اکثریت کی مخالفت
حقیقت یہ ہے کہ مغربی ایشیائی خطے کے لوگوں کی اکثریت بیت المقدس کی قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خلاف ہے اس لیے کہ مختلف ممالک میں لوگوں نے مظاہرے کرکے صیہونیوں کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کا اعلان کیا،واشنگٹن فاؤنڈیشن فار امریکن اسٹڈیز کی جانب سے ابراہیم معاہدے پر دستخط کے دو سال بعد کیے گئے سروے کے نتائج کے مطابق 71 فیصد اماراتی اور 76 فیصد بحرینی عوام قابضین کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کے خلاف ہیں، اس کے علاوہ اس سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 75 فیصد سعودی عوام قابض حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کرتے ہیں، اگرچہ ان ممالک میں رائج حکومتی ڈھانچے کی وجہ سے اس صیہونی سازش کے خلاف مظاہرے کرنا ممکن نہیں لیکن لوگوں نے رائے شماری کے ذریعے اپنی مخالفت کا اظہار کیا۔

قابل ذکر ہے کہ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی حالیہ جنگ کے دوران بحرین، کویت، لبنان، عراق، قطر، مغرب، اردن، تیونس، لیبیا اور مصر سمیت مختلف ممالک میں لوگوں نے فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا اور صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کی لہذا صیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی مخالفت کرنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس سازش کا حصہ بننے والے ممالک کے حکمرانوں کی اندرونی حتی علاقائی حیثیت پر بھی منفی اثر ڈالے گی۔

2. صیہونی حکومت کی کمزوری
آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کے معمول پر لانے کو جوا اور ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانا قرار دیے جانے کی ایک اور وجہ صیہونی حکومت کی اندرونی نازک حالت ہے،اس حکومت کے حالات خاص طور پر پچھلے 5 سالوں میں مستحکم نہیں رہے،پچھلے 5 سالوں میں 5 پارلیمانی انتخابات ہوئے جبکہ کابینہ کی زیادہ سے زیادہ مدت ایک سال رہی، پچھلے سال میں صیہونی حکومت نے نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف عوامی مظاہروں کا سب سے زیادہ مشاہدہ کیا، ایسے مظاہرے جن میں کئی لاکھ افراد نے شرکت کی جبکہ سیاسی اختلاف بھی اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ پارٹیاں اور ان کے لیڈر کابینہ کو گرانے کی کوشش کر رہے ہیں،اسی دوران نیتن یاہو کی کابینہ کی تشکیل انتہا پسند اور نسل پرست عناصر کی موجودگی سے ممکن ہوئی۔

اس صورت حال کی وجہ سے صیہونی حکام بشمول اس حکومت کے سربراہ نے کئی بار تنازعات اور خانہ جنگی کے خطرے نیز اندر سے تباہی کے بارے میں خبردار کیا، اس صورتحال میں عرب ممالک ایسی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لا رہے ہیں جسے اندر سے بہت سے اور سنگین مسائل کا سامنا ہے اس لیے نہ صرف تعلقات کو معمول پر لانے سے ان کے مفادات حاصل نہیں ہوں گے بلکہ اس عمل سے صرف اور صرف صیہونی حکومت کو فائدہ ہو گا۔

3. مزاحمت کے محور کی ہم آہنگی اور بڑھتی ہوئی طاقت
اسلامی ممالک کے لیے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے غیر نتیجہ خیز ہونے کی تیسری وجہ ملکوں کے اندر اور علاقائی سطح پر مزاحمت کے محور کی پوزیشن ہے،بلاشبہ مزاحمت کے محور کی آج کی پوزیشن کا پچھلی دو دہائیوں یا ایک دہائی سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، آج مزاحمت کے محور میں داخلی اور علاقائی ہم آہنگی ہے اور مزاحمت کے محور کے کردار اور مقام پر غور کیے بغیر خطے کا سیاسی اور سلامتی نظم ممکن نہیں، دوسری طرف تعلقات کے معمول پر آنے سے فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے ساتھ ساتھ تحریک فتح کے کچھ ارکان اور دوسرے گروپ جو سمجھوتہ پر یقین رکھتے ہیں، اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسطین کے مفادات اور سلامتی کا واحد راستہ صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت اور مدافعت کی طاقت کو بہتر بنانا ہے۔

2020 مین ابراہیم معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ایک طرف مزاحمت کی ایک نئی نسل تشکیل پا چکی ہے جو کسی بھی سمجھوتے کے سخت خلاف ہیں یہاں تک کہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تل ابیب میں مزاحمتی کاروائیاں کی جائیں اور دوسری طرف مغربی کنارہ بھی غزہ کے باریکہ کی طرح مسلح ہوچکا ہے،مغربی کنارے کا جنین گزشتہ دو سالوں میں ایک بار پھر مزاحمت کا مرکز بن گیا اور صیہونی حکومت کو مغربی کنارے کی سرحد پر اپنی فوجی دستوں کا بڑا حصہ تعینات کرنا پڑا نیزطوفان الاقصی آپریشن جس نے صیہونی حکومت پر سب سے بڑی فوجی اور انٹیلی جنس شکست مسلط کی، فلسطینی گروہوں کی خود اعتمادی اور خود انحصاری کو ثابت کیا، ایسی صورت حال میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مطلب فلسطین کے لیے مزید امن و سلامتی نہیں ہو گا کیونکہ فلسطینیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا نہیں سوچتے بلکہ انہوں نے عرب ممالک کی حمایت سے مایوس ہو کر مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔

نتیجہ
عرب ممالک کو تعلقات معمول پر لانے کے جال میں پھنسانا بیت المقدس کی قابض حکومت کے مفادات اور سلامتی کے لیے امریکی سازش ہے،گزشتہ تین سالوں کے تجربے نے ثابت کیا ہے کہ تعلقات کو معمول پر لانے سے فلسطینیوں کے لیے امن و سلامتی نہیں ہو گی بلکہ ان کے خلاف صیہونی جرائم میں شدت آئے گی،طوفان الاقصی اور گذشتہ دو ہفتوں میں صیہونی حکومت کے جرائم بالخصوص المعمدانی ہسپتال پر بمباری نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے،اس کے علاوہ، ممالک اور علاقے کے عوام کی اکثریت کی مخالفت کی وجہ سے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے والے ممالک کی حیثیت پر اثر پڑے گا نیز عرب حکمرانوں کے طرز حکمرانی کے ستون بھی کمزور پڑ جائیں گے۔

مزید پڑھیں: عرب عوام صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

آیت اللہ خامنہ ای نے ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایرانی حکام، اسلامی ممالک کے سفیروں اور تہران میں وحدت کانفرنس کے مہمانوں کے ساتھ ملاقات میں اس سمجھوتے کو جوا ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط قرار دیا نیز صیہونی حکومت کے انتہائی نازک اندرونی حالات بھی ان کے اس بیان کی ایک وجہ ہیں، یہ کہنا ضروری ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے سامنے صیہونی حکومت کی زبردست حیرت اور صدمے نے یہ ظاہر کیا کہ مستقبل مزاحمت کے محور اور فلسطینی انقلابی نوجوانوں کا ہے جو غاصبانہ قبضے کے خلاف کھڑے ہیں۔

مشہور خبریں۔

بجلی اپنی معمول پر آگئی

🗓️ 8 نومبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں) کمپنی کے مطابق اس کے زیر انتظام علاقوں

علی امین گنڈاپور کا اسلام آباد میں جلسے کے بارے میں اہم اعلان

🗓️ 5 اگست 2024سچ خبریں: خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اعلان کیا

الاقصیٰ طوفان نے صہیونی فوجیوں کو بھاگنے پر مجبور کیا

🗓️ 3 جولائی 2024سچ خبریں: غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی طویل جنگ

پیوٹن کا شمالی کوریا کا دورہ

🗓️ 22 جون 2024سچ خبریں: واشنگٹن میں روس کے سفیر اناتولی انتونوف نے اعلان کیا کہ

حماس کے سربراہ کی حسن نصراللہ کے ساتھ ملاقات

🗓️ 29 جون 2021سچ خبریں:لبنان کے دورے کے دوران حماس کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ

یمنی فوج کے ہاتھوں سعودی اور سوڈانی کرائے کے200 فوجی ہلاک

🗓️ 22 فروری 2022سچ خبریں:یمن کے سرحدی علاقے میں اس ملک کی فوج اور عوامی

بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کے لیے اعزاز

🗓️ 20 فروری 2024سچ خبریں: برازیل کے صدر اور صیہونی حکام کے درمیان کشیدگی کے

پنجاب کا نیا آئی جی مقرر

🗓️ 22 جولائی 2022لاہو: (سچ خبریں)وفاقی حکومت نے وزیراعلیٰ پنجاب کے سنسنی خیز انتخاب سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے