صہیونی غزہ پر فاسفورس بم کیوں گرا رہے ہیں؟

فاسفورس

🗓️

سچ خبریں: جبالیا کیمپ پر 6 ٹن فاسفورس بم گرانا صہیونیوں کے غیر روایتی ہتھیاروں اور اجتماعی قتل عام کے ہتھکنڈوں کے ساتھ جرائم کا صرف ایک حصہ ہے،فاسفورس بموں کی خصوصیات کیا ہیں اور صیہونیوں کے ہاتھوں ان کے استعمال کا مقصد کیا ہے؟

غزہ کی پٹی کے کھنڈرات بن جانے والے مختلف علاقوں پر صیہونی فوج کے وحشیانہ حملے شدت کے ساتھ جاری ہیں،ان حملوں میں بنیادی طور پر فلسطینی اسپتالوں اور طبی مراکز، مساجد اور اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکہ کیسے فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک ہے؟ امریکی فوجیوں کی زبانی

غزہ کے شہداء کے اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے جو زیادہ تر عام شہری ہیں،جس سے صیہونی حکومت کا اصل ہدف فلسطینیوں کی نسل کشی معلوم ہوتا ہے، اس مذموم منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے قابض حکومت نے غیر روایتی ہتھیاروں اور بڑے پیمانے پر قتل عام کا سہارا لیا ہے، یہ حربہ جو غزہ جنگ کے آغاز سے ہی استعمال ہوا اور آج تک جاری ہے۔

دستیاب دستاویزات کے مطابق فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ فوجی جھڑپوں کے چوتھے روز کے دوران صیہونی حکومت نے پہلے غزہ کی پٹی اور پھر لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر فاسفورس بم برسائے۔

تقریباً ایک ماہ قبلطوفان الاقصیٰ آپریشن کے 27ویں دن، قابض حکومت نے الشاطی کیمپ میں UNRWA (اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی) سے منسلک ایک اور اسکول پر بمباری کی جہاں بڑی تعداد میں فلسطینی پناہ گزینوں نے پناہ لیے رکھی تھی۔

الجزیرہ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ اس سکول پر حملے میں قابض فوج نے فاسفورس بموں کا استعمال کیا لیکن اس حکومت کی جانب سے فاسفورس بموں کے استعمال کے سب سے زیادہ واقعات میں سے ایک غزہ کے شمال میں واقع ایک گنجان آباد علاقے جبالیا کیمپ میں پیش آیا جو نسل کشی کے صہیونی منصوبے کو ظاہر کرتا ہے۔

حال ہی میں غزہ کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے اس علاقے کو مکمل طور پر تباہ کرنے اور جبالیا کیمپ میں مقیم فلسطینیوں کو ہلاک کرنے کے لیے 6 ایک ٹن بم استعمال کیے ہیں۔

وزارت نے مزید کہا کہ جبالیہ کیمپ میں مقیم فلسطینیوں کی آبادی کی سب سے زیادہ ہے ، اسی وجہ سے صیہونی حکومت کے لڑاکا طیاروں نے اسے نشانہ بنایا ہے،تصاویر اور ویڈیوز جیسی موجودہ دستاویزات کے علاوہ شہداء اور زخمیوں کے جسموں پر ہونے والے اثرات کے بارے میں انسانی حقوق کے حکام کا کہنا ہے کہ یہاں فاسفورس بموں کا استعمال کیا گیا ہے۔

یورپی میڈیٹیرینین ہیومن رائٹس واچ جس کا ہیڈ کوارٹر جنیوا میں واقع ہے، کے سربراہ رامی عبدو نے کہا کہ صیہونی فوج غزہ کے شمال مغرب میں گنجان آبادی والے علاقوں پر اپنے حملوں میں فاسفورس بموں کا استعمال کرتی ہے۔

نیویارک میں مقیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی پچھلی رپورٹس میں بتایا تھا کہ صیہونی حکومت نے غزہ کی پٹی پر حملے میں فاسفورس بموں کا استعمال کیا۔

فاسفورس بموں کے نقاط اور ان کے خطرات
سفید فاسفورس، فاسفورسکے مشتقات میں سے ایک ہے جو فوجی امور کے مقصد کے لیے دھویں کی دیوار بنانے، خاص طور پر توپ خانے کے یونٹوں کے لیے مخصوص پوائنٹ کو نشان زد کرنے اور آگ لگانے والے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے،فاسفورس ان مادوں میں سے ایک ہے جو ہوا کے ساتھ مل کر شدید روشنی اور حرارت پیدا کرتا ہے۔

لہذا سفید فاسفورس ایک آتش گیر مادہ ہے جو ہوا کے سامنے آنے پر جلنے لگتا ہے اور سفید دھواں خارج کرتا ہے، یہ مواد پانی سے نہیں بجھتا بلکہ پانی میں جلتا رہتا ہے،اگر یہ مادہ کسی جاندار کے جسم کے اعضاء پر گرے تو اس کے جسم اندر تک جل جائے گا حتیٰ کہ ہڈیوں کو بھی جلا دے گا۔

اگر یہ مادہ کسی شخص کے سر یا سینے پر ڈالا جائے تو وہ 10 سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ہلاک ہو جائے گا لیکن اگر یہ مادہ کسی شخص کے ہاتھوں یا پیروں پر ڈالا جائے تو اس سے انسان میں اتنی جلن پیدا ہو جاتی ہے کہ خون ابلنے لگتا ہے اور دل تک خون پہنچتے ہوئے تمام اعضا کو جلا دیتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران، فوجیوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ اگر وہ سفید فاسفورس سے ٹکرائیں تو فوری طور پر اپنے نیزے کے ساتھ جلنے والے مادے کی جگہ سے اپنا گوشت اور کھال کو کاٹ دیں بصورت دیگر یہ مادہ جسم کے تمام سیلولر ٹشوز میں داخل ہو کر انسان کے پورے جسم کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔

یہاں تک کہ فوجیوں کو یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ متاثرہ شخص کے جسم سے اس مادے سے داغے ہوئے کپڑوں کو جلدی سے ہٹا کر دور پھینک دیں۔ متاثرہ کے جسم سے مادہ نکالنے کے بعد، یہ سفارش کی گئی کہ اگر طبی مدد دستیاب نہ ہو تو درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے متاثرہ حصوں کو جلد سے جلد ٹھنڈے پانی سے دھویا جائے۔

لیکن سفید فاسفورس کا خطرہ یہیں ختم نہیں ہوتا،اس مادے کے آکسیڈیشن کے عمل سے نکلنے والا دھواں انتہائی زہریلا ہوتا ہے اور آنکھوں، سانس کے نلی، دل، گردے اور جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس مادہ کی اگر تقریباً 15 ملی گرام کی خوراک براہ راست انسانی منہ میں داخل ہو جائے تو مہلک ہے

غزہ سے یوکرین تک عبرانی مغربی محور کے ہاتھوں میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار
غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نئے امریکی غیر روایتی ہتھیاروں کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے ، یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صیہونی حکومت کی جانب سے غیر روایتی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔

2006 میں غزہ میں موجود ڈاکٹروں نے اس سال حکومت کے فضائی حملوں کے بعد زخمیوں کے لاعلاج زخموں کی بھی اطلاع دی،اُس وقت اطالوی میڈیا کی جانب سے کی گئی ایک وسیع تحقیقات سے پتا چلا کہ تل ابیب نے غیر روایتی مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا جس کی وجہ سے متاثرین کے جسموں میں چھینٹے اور دھات داخل ہوئے۔

نیز اس وقت لبنان اور غزہ میں سوئی دار گولیوں کے استعمال کی خبریں آئی تھیں، ایسی گولیاں جو ہزاروں چھوٹے دھاتی ڈارٹس کو خلا میں چھوڑتی ہیں جس سے متاثرین کو دردناک درد اور خوفناک زخم آتے ہیں۔

2006 میں لبنان کے ساتھ جنگ ​​میں اسرائیلی فوج نے مختلف مہلک ہتھیاروں، فاسفورس یہاں تک کہ کلسٹر بموں کا بھی استعمال کیا،وہ بم جو امریکہ نے صیہونی حکومت کو فروخت کرنے کے علاوہ یوکرین کو فراہم کیے ہیں۔

پچھلے دو سالوں میں، امریکہ کی طرف سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے غیر روایتی ہتھیاروں کی ترسیل کے بارے میں تصدیق شدہ خبریں، جیسے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار، ختم شدہ یورینیم پر مشتمل گولہ بارود، اور کلسٹر بم، کیف منتقل کیے گئے ہیں، اور یہ ہتھیار مختلف علاقوں میں بہت زیادہ استعمال کیے گئے ہیں۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عالمی جنگ اور اس کے بعد کی جنگوں کے دوران فاسفورس بموں کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے، 2004 میں امریکی فوج کے ہاتھوں عراق کے فلوجہ کے لوگ، سعودی فوج کے ہاتھوں یمنی ، 33 روزہ جنگ میں لبنان کے لوگ نیز افغانستان اور ویتنام کے لوگ سفید فاسفورس کے استعمال کے دیگر متاثرین میں شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: فلسطینیوں کی نسل کشی کے بارے میں صیہونی نظریہ

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ فاسفورس بم واپنز آف ماس ڈسٹرکشن (WMD) کے زمرے میں آتا ہے اور 1980 کے جنیوا کنونشن کے مطابق سفید فاسفورس کو شہری علاقوں میں بطور ہتھیار استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

چونکہ فاسفورس بم سے نکلنے والے دھوئیں کو فوجی سرگرمیوں اور نقل و حرکت کو چھپانے یا کسی علاقے کو معین کرنے جیسے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ امور بین الاقوامی قانون کے تناظر میں ممنوع نہیں ہیں، اس لیے عبرانی-مغربی محور وجوہات کا سہارا لیتے ہوئے ان ہتھیاروں کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ ان کا اصل ہدف نسل کشی اور کسی بھی قیمت پر جنگ جیتنا ہے۔

مشہور خبریں۔

نوشین شاہ کا فلم ڈائریکٹر پر 35 لاکھ روپے لوٹ کر فرار ہونے کا الزام

🗓️ 21 مارچ 2024کراچی: (سچ خبریں) اداکارہ نوشین شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ فلم

چینی ترقیاتی بینک کی پاکستان کیلئے 70 کروڑ ڈالر فنانسنگ کی منظوری

🗓️ 22 فروری 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے پنجاب اور

اردنی حکام کیوں صیہونیوں کے تلوے چاٹ رہے ہیں؟

🗓️ 24 اپریل 2024سچ خبریں: اردن کی موجودہ حکومت کا اہم مقصد صیہونی حکومت کے

Baking industry growth set to rise on more stable economy

🗓️ 16 جولائی 2021 When we get out of the glass bottle of our ego

کورونا سے متاثرہ افراد میں صحت یابی کے بعد بھی 80 بیماریاں ہونے کا انکشاف

🗓️ 26 اگست 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) امریکی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی

اسرائیل کی بقا کو کئی محاذوں سے خطرہ ہے:صیہونی جنرل

🗓️ 10 ستمبر 2022سچ خبریں:ایک ریٹائرڈ اسرائیلی جنرل نے اعتراف کیا کہ اگر ہم ایک

افغانستان کو انسانی امداد میں کمی کی وجہ سے مشکل کا سامنا

🗓️ 7 اپریل 2023سچ خبریں:اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امداد OCHA نے

نیتن یاہو کے بیڈ روم پر حزب اللہ کا حملہ صیہونیوں کے لیے کیسا رہا؟

🗓️ 29 اکتوبر 2024سچ خبریں:نیتن یاہو کے بیڈ روم پر حزب اللہ کے ڈرون حملے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے