سچ خبریں:ایک ممتاز عرب تجزیہ کار نے خطے کی حالیہ صورتحال بالخصوص ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے انقرہ اور دمشق کے درمیان اتحاد کے لیے روس جیسے فریقین کی کوششوں اور اس صورتحال کے خطے میں امریکی اثر و رسوخ کے خاتمہ پر بات کی۔
انٹر ریجنل اخبار رائے الیوم کے ایڈیٹر اور عرب دنیا کے معروف تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے اپنے نئے کالم میں شام کے صدر بشار اسد اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمر پیوٹن کے درمیان حال ہی میں ہونے والی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ شام میں سب سے روس اور شام کے صدور کے درمیان ہونے والے ملاقات میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی غیر حاضری بڑی اہم تھی کیونکہ اس ملاقات کے نتائج اردگان اور ان کی پارٹی کے اقتدار میں رہنے یا اسے چھوڑنے کے لیے فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔
عطوان نے مزید کہا کہ اس وجہ سے اس بات کا امکان بعید نہیں ہے کہ اردگان وقتاً فوقتاً اپنا فون دیکھیں اور پیوٹن کی کال کا انتظار کریں تاکہ انہیں ترکی، شام اور روس کے صدور کے درمیان سہ فریقی اجلاس کے انعقاد کے بارے میں مطلع کیا جا سکے خاص طور پر اس صورتحال میں کہ ترکی کے صدارتی انتخابات میں زیادہ وقت باقی نہیں ہے۔
دوسری جانب چینی صدر شی جن پنگ کے حالیہ اقدام سے خطے کے دو سب سے بڑے ممالک سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے قریب ہو گئے اور یہاں ایران کا اتحادی روس شام اور ترکی کے درمیان مفاہمت کی کوشش کر کے اس دائرے کو مکمل کر کے ہم آہنگی کے لیے شرائط فراہم کرنا چاہتا ہے تاکہ ان دو ممالک کے درمیان تمام اختلافات کو دور اور حل کیا جا سکے،انہوں نے واضح کیا کہ اگر پیوٹن اس معاملے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے امریکہ کو سب سے بڑا دھچکا لگے گا اور مشرق وسطیٰ کے خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کا چین اور روس کا منصوبہ مکمل ہو جائے گا،اس وقت روس اور شام کے صدور کے درمیان ہونے والی ملاقات کے ایجنڈے پر سب سے اہم مسئلہ شام کی حکومت کی مطلوبہ شرائط کے مطابق انقرہ اور دمشق کے درمیان تعلقات کی بحالی ہے،اس تناظر میں شام کی سب سے واضح شرائط میں سے تمام شامی سرزمین سے ترکی کا مکمل انخلاء اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا نیز 40 لاکھ شامی مہاجرین کی واپسی ہے جو شامی جنگ کے آغاز سے ترکی میں پناہ گزین ہیں جبکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور اقتصادی تعاون میں اضافہ بھی اس ملاقات میں ثانوی اہمیت کا حامل ہے۔
اس کالم کے مطابق ترکی اور ایران اس وقت انقرہ اور دمشق کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے روس شام اتحاد پر اعتماد کر رہے ہیں،ایک ایسا مسئلہ جو خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کا سبب بنتا ہے جبکہ اس وقت ترکی میں انتخابات کا وقت قریب آتے ہی اردگان اور ان کی پارٹی کی مقبولیت کم ہوتی جا رہی ہے،حالیہ زلزلے کی تباہی، بے مثال معاشی بحران اور خاص طور پر ترک لیرا کی قدر میں گراوٹ سے نمٹنے کے لیے اردگان کی حکومت کی غیر تسلی بخش کارکردگی عوام میں ان کی اور ان کی پارٹی کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کا باعث بنی ہے۔
عبدالباری عطوان نے زور دے کر کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اردگان محسوس کرتے ہیں کہ ترکی میں شامی مہاجرین کے مسئلہ کو حل کرنے اور ان کی شام واپسی کے لیے انہیں شام کے ساتھ کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ کرنا چاہیے خاص طور پر جبکہ شامی مہاجرین اردگان کے مخالفین کے ہاتھ میں کارڈ بن چکے ہیں،اردگان کی اپوزیشن جماعتوں نے ایک سرکاری پیغام میں بشار الاسد سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ شام سے ترک افواج کو مکمل طور پر نکال دیں گے اور شامی مہاجرین کو اپنے ملک واپس بھیج دیں گے،انھوں نے شامی حکومت کے مخالفین اور شدت پسندوں سے اپنے تمام تعلقات منقطع کرنے، شام میں اردگان حکومت کی جارحیت کے بدلہ میں اس ملک کو معاوضہ ادا کرنے اور اس کی تعمیر نو میں حصہ لینے کا وعدہ بھی کیا۔
اس عرب تجزیہ کار نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بشار الاسد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ترکی کے شام سے مکمل انخلاء اور اس سلسلے میں سنجیدہ ضمانتوں کی فراہمی کو اردگان کے ساتھ کسی بھی ملاقات کے لیے پیشگی شرط کے طور پر تجویز کریں۔ کیونکہ شام کے مفادات اور اس کی سرزمین کا اتحاد بشار الاسد کے لیے ہر لحاظ سے زیادہ اہم ہے، لیکن شام کے صدر کو اردگان کے زبانی وعدوں پر مبنی ترک حکومت کے ساتھ مفاہمت پر کوئی یقین نہیں ہے اس لیے کہ شام کی پیٹھ میں سب سے بڑا خنجر اس کے اسی پڑوسی ، دوست اور اتحادی ملک نے مارا اور ترکوں نے دمشق کے ساتھ تمام وعدوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی کی جس میں سب سے واضح 1998 میں ہونے والا آدنا معاہدہ تھا اور اپنی فوجیں شام پر حملہ کرنے اور اسے تباہ کرنے کے لیے بھیجیں۔
اس کالم میں کہا گیا ہے کہ اسی وجہ سے بشار الاسد نے ترکی کے ساتھ تمام ملاقاتیں سکیورٹی معاملات تک محدود کر دی ہیں اور وہ اپنی تمام سرزمین پر شام کی خودمختاری کو کسی بھی دوسرے معاملے پر ترجیح سمجھتے ہیں،شام کے ایک سینئر ذریعے نے اطلاع دی ہے کہ پیوٹن اور ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے اعلان کیا ہے کہ بشار اسد ماسکو یا سوچی میں اردگان سے ملاقات کے سخت مخالف ہیں کیونکہ اردگان نے ترکی کے صدارتی انتخابات کے انعقاد کے بعد شام کی تمام شرطوں بالخصوص اس ملک کے شمال مغرب سے انخلاء کو عملی جامہ پہنانے کا عزم کیا ہے،اس لیے سب سے پہلے ہمیں اس الیکشن کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔
عطوان نے لکھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیوٹن شام کے صدر اور ان کی حکومت کے لیے اعلیٰ مقام رکھتے ہیں کیونکہ پیوٹن نے شام کی حکومت کو تباہ اور گرانے کی امریکی سازش کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس میدان میں بہت زیادہ مالی اور انسانی نقصانات اٹھائے جبکہ پیوٹن کا اردگان پر اتنا اثر نہیں ہے کیونکہ اردگان نے ہمیشہ ہوا کے رخ پر مڑنے کی کوشش کی ہے اور مشرقی اور مغربی اطراف کے ساتھ تمام چینلز کھلے رکھنے کی کوشش کی ہے،ترکی نے نیٹو کا رکن بننے کے لیے بھی بہت کوششیں کیں لیکن یوکرین کی جنگ نے سب کچھ خراب کر دیا، انہوں نے مزید کہا کہ ولادیمیر پیوٹن اور بشار الاسد کے درمیان ملاقات کے بعد جاری ہونے والے تمام سرکاری بیانات عمومی اور دونوں فریقوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی نوعیت سے متعلق تھے، اس لیے ہمیں روس، ایران، شام اور ترکی کے درمیان چار طرفہ اجلاس کے بعد کریملن محل سے سفید دھواں نکلنے کا انتظار کرنا چاہیے جو دمشق اور انقرہ کے درمیان ترکی کی طرف سے شام کی شرطوں پر مکمل عمل درآمد پر مبنی معاہدے کے لیے ایک مضبوط اشارہ ہو سکتا ہے،ہو سکتا ہے کہ یہ سربراہی اجلاس بشار الاسد اور اردگان کے درمیان ملاقات کا میدان بن سکے اور اس طرح مشرق وسطیٰ کے خطے میں امریکی موجودگی کو نشانہ بنایا جائے۔