سچ خبریں:امریکی جنرل سلیمانی کے قتل سے کئی اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن صورتحال ان کے تصور کے برخلاف ہوئی اور اس عظیم مزاحمتی کمانڈر کی شہادت کے 3 سال بعد ہم خطے میں امریکی صہیونی محور کے مفادات کے برعکس مساوات دیکھ رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی تیسری برسی پر المیادین چینل نے اپنا اداریہ خطے میں طاقت کے توازن ، شام اور عراق میں دہشت گردی کی شکست نیز امریکی صیہونی منصوبوں کو بے اثر کرنے میں شہید سلیمانی کے کردار پر روشنی ڈالنے کے لیے وقف کیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سردار سلیمانی اور خطے میں طاقت کا توازن
ایران تقریباً واحد ملک تھا جس پر شام اور بشار الاسد کی حکومت اپنے سب سے مشکل اور غیر یقینی بحران میں آنکھ بند کرکے بھروسہ کر سکتی تھی،2011 کے شامی بحران کے دوران ایران اور حزب اللہ دمشق کے سیاسی نظام کے اہم حامی تھے لیکن اسے شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے جنرل قاسم سلیمانی کے کردار سے الگ نہیں کیا جا سکتا، اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اتحاد اور ہمبستگی جمہوریہ شام کے صدر بشار الاسد کے لیے ایک بڑی طاقت تھی، جنہوں نے نومبر 2022 میں ایک تقریر میں اعلان کیا تھا کہ شام اور ایران کا اسٹریٹجک اتحاد ہے اور وہ اس اتحاد کے پیٹرن کو تبدیل کرنے والی کسی چیز کو ہر گز قبول نہیں کریں گے لیکن جنرل قاسم سلیمانی شام کی عصری تاریخ کے ایک حساس، چونکا دینے والے اور بے مثال لمحے نیز ایک انتہائی خطرناک علاقائی تنازع کے عروج پر اس ملک میں آئے، شام کی جنگ نے خطے میں تنازعات پر غیر ملکیوں اور بین الاقوامی طاقتوں کی مداخلتوں اور داؤ کے بڑے حجم کا انکشاف کیا، دریں اثنا جنرل سلیمانی شام ایران اتحاد کی علامت اور اس اتحاد میں طاقت اور استحکام کے ایک اہم رکن ہیں ، شام میں تکفیری دہشت گردوں کے ساتھ میدان جنگ میں ان کی موجودگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ شام کے استحکام اور سلامتی کی ضمانت ایران کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سرفہرست ہے،شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مختلف میدانوں بشمول حماۃ، دیرالزور، حمص وغیرہ میں جنرل سلیمانی کی منفرد کمان یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایران شام کی سلامتی کا کتنا خیال رکھتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تزویراتی اتحاد کو کوئی چیز تباہ نہیں کر سکتی، اس کالم میں ہم شہید سلیمانی اور مزاحمتی محاذ کی فتوحات میں ان کے نمایاں کردار کے بارے میں کئی پہلوؤں کا جائزہ لینے جارہے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ دہشت گردی کے حامی ان سے اس قدر دشمنی کیوں رکھتے تھے۔
جنرل سلیمانی کا نقطہ نظر
جنرل قاسم سلیمانی کے قتل نے کئی نکات کو واضح کیا:
1۔ اس سے مزاحمت کی پالیسیوں اور حفاظتی حکمت عملی میں مزاحمت کے اس عظیم کمانڈر کے کردار کا پتہ چلتا ہے۔
2۔ دوسرا نکتہ جنرل سلیمانی کی نظر میں شام کے بحران کے حل کی اہمیت اور ترجیح سے متعلق ہےنیز جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد شام کے بحران کے خطرات اور پیچیدگیوں اور دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لیے شام میں روس کی سرگرمیوں کی حمایت میں جنرل کے کردار کا انکشاف ہوا۔
3۔ اس تناظر میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکی دہشت گردوں اور ان کے اتحادیوں کا جنرل سلیمانی کو نشانہ بنانا خطے کی عسکری اور سیاسی حکمت عملی اور دہشت گردی کی شکست میں ان کے اہم کردار کا اعتراف ہے۔
4۔ جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ نہ صرف ان کے قتل کے جرم کے مرتکب افراد کو ان کا مقصد حاصل نہیں ہوا بلکہ ایران اور مزاحمت کا پورا محور جبر اور استکبار کے خلاف جنگ میں زیادہ طاقت کے ساتھ شہید کی وہی حکمت عملی اور پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔
لہذا جنرل سلیمانی کے قاتلوں ، ان کے قتل کے محرکات اور اس لمحے کے بارے میں بات کرنا جب وہ اور ان کے ساتھی شہید ہوئے صرف اس واقعے کو یاد رکھنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد خطے کے توازن کو بدلنے کے عوامل اور اس میں جنرل سلیمانی کے کردار کو جاننا ہے خاص طور پر شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی منظم کمان اور اس میدان میں روسیوں کے ساتھ ہم آہنگی۔
سردار سلیمانی؛ خطے میں استکبار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بنیاد
جنرل قاسم سلیمانی نے خطے میں امریکی تسلط کے خلاف کارروائی کو جہاد اور ظلم کے خلاف جنگ کی بنیاد سمجھا، خاص طور پر مغربی پالیسیوں میں پسے ہوئے خطے کے کشیدہ حالات میں، جنرل سلیمانی کے مطابق ’’مزاحمتی اتحاد‘‘ کا اصول یہ ہے کہ اس محور کے تمام ارکان کو اس طرح کام کرنا چاہیے جیسے وہ ایک ساتھ رہتے ہیں اور مل کر وسائل بنانا چاہتے ہیں، شام کے بحران کے آغاز سے ہی جنرل سلیمانی کے نقطہ نظر سے اس میدان میں سب سے اہم اصول یہ تھا کہ اس ملک کو دہشت گردی اور غیر ملکی مداخلت سے بچانے کے لیے مزاحمتی محور کے تمام ارکان ایک مضبوط اتحاد کے ساتھ اس ملک کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، اس نقطہ نظر کے ساتھ جنرل سلیمانی شام اور خطے میں عسکری یا سیاسی امور کو منظم کرنے کے لیے صرف ایک رہنما یا کمانڈر نہیں تھے بلکہ وہ جو کچھ کر رہے تھے اسے ایمان کے ساتھ اور مزاحمت کے محور کا فرض سمجھتے تھے، جنرل سلیمانی کی نظر میں علاقے کے لوگوں کو جو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات خود سنبھالں اور مغرب اور مطلق العنان نیز استکباری حکومتوں کے سامنے خوف و ہراس کی کیفیت کو ختم کریں لہٰذا جنرل سلیمانی کی جنگی محاذوں پر موجودگی ان کی اعلیٰ بیداری اور خطے کی سیاسی حقیقت کو بدلنے، مغربی امریکی صیہونی محور کے خلاف خطے میں معنی اور طاقت کے توازن کو درست کرنے کی سمت میں کام کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے ہےم وہ جس محاذ پر بھی ہوتے تھے ان اقدار کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
سردار سلیمانی کے قاتلوں کا انہیں قتل کرنے کا مقصد
امریکہ اور ایران کے درمیان دشمنی کی جڑیں تاریخ میں بہت پرانی ہیں جو 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب آنے سے شروع ہوئی ، اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دشمنی مختلف مراحل سے گزری یہاں تک کہ شام کے بحران کے دوران دونوں فریق ایک بار پھر آمنے سامنے گئے جو ایک خوفناک جنگ تھی، ایسی جنگ جس میں امریکہ نے شام کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کی تھی لیکن ایران شام کی حمایت کے لیے دہشت گردوں سے لڑ رہا تھا، تاہم جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کے اپنے دہشت گردانہ اقدام سے امریکہ نے ایران کے ساتھ محاذ آرائی کے ماڈل اور قسم کو نظرانداز کر دیا جو دونوں ممالک کے درمیان بالواسطہ جنگی حکمت عملی کو شدید اور براہ راست تصادم میں تبدیل کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے، اس کے بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی اثرات ظاہر ہوئے کئی سالوں سے امریکہ نے ایران کی طاقت اور اثر و رسوخ سے نمٹنے کے لیے ایرانی قوم پر دباؤ ڈالنے اور اقتصادی پابندیوں کے اپنے روایتی طریقوں کا سہارا لیا لیکن اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے، یہی بات شام کے خلاف بھی امریکی پالیسی پر بھی لاگو ہوتی ہے، اس کے بعد امریکہ نے مزاحمتی اتحاد کو ختم کرنے کے مقصد سے اقوام کے درمیان ثقافتی اور پروپیگنڈہ سازشوں کا استعمال کیا پھر بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، لہذا واشنگٹن نے ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت محسوس کی کیونکہ امریکہ نے خطے میں مزاحمت کے خلاف جو جنگیں لڑی ہیں ان میں سے کوئی بھی نہیں جیت سکا ، ہم اس سلسلے میں مبالغہ آرائی نہیں کر رہے ہیں کیونکہ اس مسئلے کو ثابت کرنے والے بہت سے دستاویزی ثبوت اور وجوہات ہیں، شام کی جنگ اس میدان میں سب سے واضح مثال ہے، جہاں ایران نے دہشت گردی کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا، اس تناظر میں جنرل سلیمانی کا قتل امریکہ کی اس کوشش کا نتیجہ تھا کہ وہ ایران کے خلاف اپنی شکستوں کے تعطل سے باہر نکلے اور مزاحمت نیز خطے میں ایران اور اس کے اتحادیوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی پیشرفت اور اپنی گرتی ہوئی پوزیشن کو روکے نیز صیہونی حکومت کے خلاف مزید تحفظات اور فوائد حاصل کرے،درحقیقت، امریکہ ایران کو بین الاقوامی اتحاد کے حصول سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ ایران، روس اور چین کے درمیان اسٹریٹیجک معاہدے اور بحری مشقیں امریکہ کے لیے انتہائی خطرناک اور منفی اشارے تھے لہذا امریکہ اس نتیجہ پر پہنچا اور اس نے محسوس کیا کہ مزاحمتی طاقت کی نشوونما کو روکنے کے لیے اسے کارروائی کرنا ہوگی،واشنگٹن نے خطے اور خاص طور پر عراق سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے دباؤ سے چھٹکارا پانے کے لیے منصوبے اور حکمت عملی تیار کرنے کی بھی کوشش کی اس لیے امریکیوں کا خیال تھا کہ جنرل سلیمانی اور الحشد الشعبی کی افواج عراق اور شام سے امریکی فوج کو نکالنے کے لیے تیار ہیں لہٰذا امریکہ نے یہ سوچ کر کہ پابندیاں، ناکہ بندی اور بدامنی پھیلانے سے خطے میں امریکی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کو ایران سے ملنے والی مادی اور روحانی حمایت اور ارادے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اس جرم کا ارتکاب کیا اور جنرل سلیمانی کا قتل کیا لیکن اس جرم نے نہ صرف ماضی کے حقائق کو واضح کر دیا بلکہ مستقبل کا راستہ بھی واضح کر دیا۔
جنرل سلیمانی کی شہادت سے سامنے آنے والے حقائق
جنرل سلیمانی کی شہادت نے خطے کے دشمنوں کی طرف سے ایک اہم حقیقت کا انکشاف کیا؛ وہ دشمن کی جانب سے اس لائن کو ختم کرنے کی کوشش جس پر شہید سلیمانی کام کر رہے تھے، یعنی "لائن آف مزاحمت”، جنرل سلیمانی کے ساتھ جو ہوا وہ بعید از قیاس نہیں تھا اور شہادت ان کے تصور کا اصل ارادہ اور ویژن تھا، سردار سلیمانی نے اپنے خون سے اپنی سوانح حیات پر دستخط کئے، اس سے زیادہ واضح کوئی بات ہو سکتی ہے؟ جنرل سلیمانی کی شہادت شام کے بحران اور امریکہ کی سرپرستی میں کام کرنے والے اس کے ذمہ داروں کی شرط بندی کے بارے میں ایک انکشافی واقعہ تھا،ایران اور امریکہ کے درمیان محاذ آرائی اس مقام پر پہنچ چکی تھی جہاں امریکہ کے لیے ایران اور مزاحمت کے خلاف اپنے مقاصد حاصل کرنا بہت مشکل تھا، یہ ایک واضح سی بات ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان اور حب الوطنی نے جنرل سلیمانی کے اندر طاقت اور جذبہ پیدا کیا تو وہ خطے میں مزاحمت اور اس کے دشمنوں کی مادی سہولتوں کے درمیان بڑے فرق کے باوجود طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرنے میں کایاب ہوئے، مزاحمت کی قوت ارادی اور اپنے حقوق کے حصول کے عزم نے اس محور کو عظیم ترین فتوحات حاصل کرنے کی طاقت بخشی، جیسا کہ حزب اللہ اور صیہونی حکومت کے درمیان 2000 اور 2006 کی جنگ میں ہوا، اسی طرح عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ میں مزاحمت کو حاصل ہونے والی فتوحات، اس کے بعد سے ہم فلسطینی مزاحمت کے خلاف صیہونی دشمن کی پے در پے شکستوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اس لیے جنرل سلیمانی کے قتل کے امریکی ہدف کو شام میں دہشت گردی کی شکست میں ان کے کردار اور طاقت کی مساوات سے الگ نہیں کیا جا سکتا، یہ امریکی جرم شام میں اس کے عزائم اور سازشوں کی حد کو بھی ظاہر کرتا ہے جہاں امریکہ نے شام پر قبضہ کرنے اور الجزائر کے علاقے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے مزاحمت کو اس مقصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ پایا۔
روس سلیمانی کے انتظار میں
لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی نے 24 جولائی 2015 کو روس کا سفر کیا جس میں اس ملک کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی اور انہیں شام نیز خطے کے نقشے اور خطرات کے ذرائع کے بارے میں بتایا، اس ملاقات میں دونوں فریقوں نے شام کے بحران کے حل کے لیے ایران اور روس کے درمیان ممکنہ تعاون یا سکیورٹی اور اسٹریٹیجک تعاون کے ماڈلز اور اس ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا موثر جواب دینے کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا، جنرل سلیمانی کے اس دورے کے چند روز بعد روسیوں نے شام میں دہشت گردوں کے خلاف براہ راست فوجی کارروائی شروع کر دی۔، لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کی پیوٹن سے ملاقات شام کی جنگ میں ایک اہم موڑ تھی،اس کے بعد سے حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے جولائی 2006 میں صیہونی دشمن کے ساتھ حزب اللہ کی جنگ میں جنرل سلیمانی کے براہ راست کردار اور اس جنگ میں غاصبوں کی شکست میں ان کے کردار کے بارے میں بات کی ہے، لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں سیاسی اور میڈیا گفتگو میں ہونے والی تشریح اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ مزاحمتی محور اور شامی اتحادیوں کے آپریشن روم کے سب سے نمایاں فوجی، آپریشنل اور اسٹریٹجک کمانڈر تھے، اس حصے میں ایک اور نکتہ جس کا جائزہ لیا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ شام کے لیے ایران اور حزب اللہ کی حمایت اس جنگ میں اس ملک کے استحکام کے اہم عوامل میں سے ایک تھی۔ وہ بھی ایسی حالت میں جب علاقائی اور بین الاقوامی حملوں اور سازشوں نے دمشق کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا، اس صورتحال میں شام میں مغرب کا مقابلہ کرنے کے لیے روس نے دمشق کی حمایت کے لیے فوجی کارروائی کرنا ضروری سمجھا اور گویا وہ جنرل سلیمانی کے شام میں ہونے اور دہشت گردوں سے لڑنے کے بارے میں اپنے شکوک و شبہات کو ختم کرنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اس لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے شام میں روس کی فوجی موجودگی کو یقیناً ایران ، حزب اللہ اور لیفٹیننٹ جنرل سلیمانی کے کردار سے الگ نہیں سمجھا جا سکتا، اس لیے امریکیوں نے جنرل سلیمانی کے قتل کو خطے میں ایران کی اتحادی طاقت کا مقابلہ کرنے کا ایک اچھا موقع سمجھا اور سوچا کہ جنرل سلیمانی کو راستے سے ہٹانے کا مطلب خطے میں ایران کی فوجی طاقت میں نمایاں کمی ہے، اس کے بعد امریکہ ایران کی فوجی طاقت میں نمایاں کمی نیز ایران پر اقتصادی دباؤ اور پابندیوں کو تیز کر سکتا ہے تاکہ اس ملک کو ہمارے علاقائی اور بین الاقوامی اتحاد کا مقابلہ کرنے کا موقع نہ ملے لیکن امریکیوں کا یہ خیال غلط تھا اور انہوں نے دیکھا کہ جنرل سلیمانی کے قتل میں واشنگٹن کے جرم کے ابتدائی ردعمل میں تہران نے فوجی کارروائی کی اور عراق میں امریکی اڈے کو نشانہ بنایا۔
لیفٹیننٹ جنرل سلیمانی کے منصوبے اور حکمت عملی
چونکہ شام اور ایران نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جنرل سلیمانی کی شہادت سے قبل ان کے کام ، عسکری و سکیورٹی کاوشوں کے بارے میں زیادہ معلومات شائع نہیں کی تھیں، اس لیے امریکی اور صیہونی ہمیشہ اس میدان میں معلومات حاصل کرنے کی تلاش میں رہتے تھے ، کہا جا سکتا ہے کہ وہ داعش اور دیگر تکفیریوں کی تباہی میں جنرل سلیمانی کے نمایاں کردار سے پوری طرح واقف تھے، اسرائیلی جانتے تھے کہ کس طرح جنرل سلیمانی نے ایک فوجی کمانڈر کی حیثیت سے مزاحمتی محور کے ستونوں کو مربوط کیا نیز فلسطین اور اس کے کاز کو اس محور کی ترجیحات میں سرفہرست رکھا،وہ جانتے ہیں کہ جن محاذوں پر جنرل سلیمانی براہ راست موجود نہیں ہوتے وہاں ان کی سوچ کی پیروی کی جاتی ہے جیسا کہ فلسطین اور یمن میں ، یہ قبضے کے منصوبے کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے، شاید امریکیوں کے کہنے کے مطابق جنرل سلیمانی نے انہیں عراق سے نکالنے کا ارادہ کیا تھا، جس طرح انہوں نے داعش کو اس ملک سے نکال دیا تھا، سید حسن نصر اللہ نے المیادین نیٹ ورک کے چیئرمین کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ایران کا جرم یہ ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور پاسداران انقلاب اسلامی کے دیگر مجاہدین عراق آئے اور بغداد کے دروازوں تک پہنچ جانے والے داعشی دہشتگردوں کو روکنے کے لیے عراقیوں کی مدد کی، اس ٹولے کے ذریعہ خطے کو تباہ کرنے ، اسے کنٹرول کرنے اور خطرناک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے ایک بڑا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن ایرانیوں نے آکر اپنے دوستوں اور اتحادیوں کی مدد کرکے انھیں اس سازش سے بچا لیا، یہ بالکل واضح ہے کہ عراق کے خلاف داعش کا دباؤ خطے میں امریکہ کی گہری سازش کا حصہ تھا،جس طرح امریکی جنرل سلیمانی کے کردار اور داعش کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کی وجہ سے عراقی مزاحمتی تحریک پر ناراض تھے، اسی طرح عراق کے شمال میں کردوں کی علیحدگی کے منصوبے کو بے اثر کرنا اور جنگ کو ایران میں داخل ہونے سے روکنا جنرل سلیمانی کے اقدامات میں سے ایک تھا جس نے امریکہ کو پریشان کیا اور اس عظیم مزاحمتی کمانڈر کو راستے سے ہٹانے کا باعث بنا۔
جنرل سلیمانی کی لائن اور سوچ
ایران امریکہ کے ان محرکات سے بخوبی واقف ہے جس کی وجہ سے اس نے جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کیا، امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جنرل سلیمانی کے قتل کے ذمہ دار اہم شخص نے کہا تھا کہ سلیمانی نے طویل عرصے میں ہزاروں امریکیوں کو ہلاک اور زخمی کیا ہے لیکن صحیح بات جو ٹرمپ کو کہنی چاہیے تھی وہ یہ تھی کہ جنرل سلیمانی ایران، شام، عراق، لبنان وغیرہ میں امریکہ کی متعدد سازشوں اور عزائم کی ناکامی اور تباہی کا سبب بنے، درحقیقت جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانا ان کی سوچ، منطق اور حکمت عملی کو ختم کرنے کی کوشش تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل سلیمانی کی راہ و روش پورے خطے میں جاری ہے،ایران کی سپاہ پاسداران کی قدس فورس کی کمان میں شہید سلیمانی کے جانشین جنرل اسماعیل قاانی اس تناظر میں کہتے ہیں کہ ہمارے کام کا منصوبہ وہی ہے جو شہید سلیمانی کی کمان کے دوران تھا، مزاحمتی گروہوں نے لبنان سے یمن تک جو مساوات کھینچی ہے نیز وہ واقعات جو ہم مقبوضہ فلسطین میں دیکھ رہے ہیں اور اسرائیل مخالف کارروائیوں کی شدت نیز مغربی کنارے میں یکے بعد دیگرے ابھرنے والے مزاحمتی گروہ جنرل سلیمانی کے نظریے کے جاری رہنے کا واضح ثبوت ہے۔
خطے میں شہید سلیمانی کے راستے اور منصوبے کے استحکام کی نشانیاں
– ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد ایران شام کی حمایت اور خطے میں صیہونی امریکی استکبار کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا کردار جاری رکھے ہوئے ہے۔
– خطے میں ایران کی حکمت عملی وسائل، خطرات اور مواقع کے انتظام، عالمی نظام میں معنی اور طاقت کے توازن کا جائزہ لینے نیز مختلف ثقافتی، سماجی اور اقتصادی سطحوں پر اپنے معاشرے کے تحفظ پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے پر مبنی ہے۔
– ہم نے گزشتہ 3 سال کے دوران خطے کے ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات اور تعاملات میں درست توازن دیکھا اور دیکھا کہ ایران کو خطے میں تنہا کرنے کی امریکی سازشیں ناکام ہوئیں۔
– اتحادی پالیسیوں کو گہرا اور مضبوط کرنا، خاص طور پر روس ، چین اور امریکی تسلط کے خلاف دوسرے اداکاروں کے ساتھ، ایران کی اپنی طاقت کے تحفظ اور اسے مضبوط بنانے کی حکمت عملی کی ایک اور جہت ہے،ایران کی روس اور چین کے ساتھ مشترکہ بحری مشق جو گزشتہ سال منعقد ہوئی تھی امریکیوں کے لیے ایک اہم پیغام تھا۔
نتیجہ
شام اور خطے میں خاص طور پر ایران اور امریکہ کے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی جنگ ہے جو ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے شروع ہوئی اور آج تک ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکی، خطے میں ایران اور امریکہ کے منصوبے، حکمت عملی اور نقطہ نظر ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہیں کہ ان کے لیے ایک مستحکم توازن تک پہنچنا ممکن نہیں ہے اور یہ مسئلہ دونوں فریقین کے درمیان ہمیشہ تصادم کی حالت میں رہتا ہے، جنرل شہید سلیمانی نے جبر اور استکبار کے خلاف جنگ میں ایک علاقائی اور بین الاقوامی مظہر کی نمائندگی کی اور خطے میں امریکہ و اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ مزاحمت اور تصادم کی صف میں ان کا ٹریک ریکارڈ اس بات کا ثبوت ہے،مزاحمت انسانیت اور ایمان کا اصول ہے ، جہاں جبر اور ظلم ہو وہاں مزاحمت بھی میدان میں ہوتی ہے ، اسی کی بنیاد پر شہید سلیمانی اور ان کے مکتب جہاد کا راستہ اور خطہ نہ صرف خطے میں بلکہ پوری دنیا میں پھیلے گا اور جاری رہے گا۔