سچ خبریں:اگرچہ تشدد اور جرائم کی جڑیں جعلی صہیونی حکومت کی بنیادوں میں پیوست ہیں لیکن قابضین تسلیم کرتے ہیں کہ نیتن یاہو کی فاشسٹ کابینہ کے قیام سے فوج میں یہ مسئلہ دوگنا ہو جائے گا اور انتہا پسندوں کے اقتدار میں آنے سے صہیونی معاشرہ بھی قابو سے باہر ہو جائے گا۔
اگرچہ نسل پرستی، تشدد، جارحیت اور دیگر انتہائی رویے صیہونیت اور جعلی اسرائیلی حکومت کے وجود میں رچ بس چکے ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران صیہونیوں نے فلسطینیوں کے ساتھ زیادہ سختی کا برتاؤ کیا ہے جس کا سبب کنیسٹ میں انتہا پسندوں کی طاقت میں اضافہ، ربیوں کے عرب مخالف فتوے، آباد کاروں کے اثر و رسوخ میں توسیع، القدس اور مسجد اقصیٰ کو یہودیانے کے لیے صہیونیوں کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں اضافہ ہے، گذشتہ برسوں کے دوران اسرائیلیوں کی طرف سے تشدد اور جارحیت میں اضافے ایک وجہ صیہونی فوج کا فلسطینی مخالف ہونا ہے، تاہم انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل ایک کابینہ کے قیام کے بعد، جن کے ارکان میں سے اکثر نسل پرست اور فاشسٹ یہودی ہیں، مقبوضہ فلسطین کے مختلف علاقوں میں عربوں کے خلاف تشدد کی خطرناک لہر کے آغاز کے خدشات بڑھ گئے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کے اثرات بڑھیں گے اور خود اسرائیلیوں کے لیے اس کے بآرے نتائج برآمد ہوں گے۔
نئی صہیونی کابینہ سیکولر قوم پرستی، سیاسی نقطہ نظر اور نسل پرستانہ نظریاتی رویے کے ساتھ دو بنیاد پرست مذہبی دھاروں کا مجموعہ ہے، نیتن یاہو کی قیادت میں لیکوڈ پارٹی پر مرکوز انتہائی دائیں بازو کے سیکولر رجحان کے ساتھ ساتھ (عربوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے منصوبے کا خالق اور مزاحمتی تحریک اور فلسطینیوں کے ساتھ سخت سلوک کا حامی)، الٹرا آرتھوڈوکس رجحان،مذہبی یہودی” جس کی قیادت اِتمار بن گوئیر کر رہے ہیں اور مذہبی صیہونیت کے رجحان کی قیادت بازلیل سموٹریچ کر رہے ہیں جو بنیاد پرست شخصیت ہیں اور عربوں کے ساتھ امن اور فلسطینیوں کے ساتھ مفاہمت کے شدید مخالف ہیں نیز وہ سنجیدگی کے ساتھ عربوں اور فلسطینیوں کو مقبوضہ علاقوں اور کنیسٹ سے بے دخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ صیہونی کابینہ کی صورتحال ہے جو فلسطین کے اندر سیاسی اور سکیورٹی انتظامات کو درہم برہم کر سکتی ہے۔
اس تناظر میں، المیادین چینل نے اپنی ایک رپورٹ میں اسرائیلی فوج میں بے ضابطگی، بد اخلاقی اور نسل پرستی کے بحران کا اجاگر کیا ہے، جسے قابض فوج کے سکیورٹی اور عسکری اداروں میں گہری جڑیں سمجھا جاتا ہے، برطانوی اخبار گارجین نے "بریکنگ دی سائیلنس” کے عنوان سے اپنی ایک رپورٹ میں حال ہی میں فلسطینیوں کے خلاف قابض حکومت کے گھناؤنے جرائم کے بارے میں چونکا دینے والی معلومات شائع کی ہیں، جن میں اسرائیلی فوج کے سابق ارکان کے اعترافات بھی شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج کے جرائم کی امریکی حمایت
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق یہ اعترافات فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی فوج کے تشدد میں اضافے کے لیے امریکہ کی مالی معاونت کو واضح کرنے کے مقصد سے کیے گئے،اسرائیلی فوج کے سابق ارکان کے اعترافات کے مطابق اس فوج کے جرائم میں بچوں سے زیادتی، فلسطینی قیدیوں پر تشدد، فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کرنا اور چوکیوں میں انہیں ہراساں کرنا شامل ہیں، اگرچہ گارڈین کی تیار کردہ رپورٹ فلسطینیوں کے خلاف صہیونی فوج کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویے کے خلاف سمندر کے ایک قطرے کی طرح ہے، تاہم اس حکومت کے جرم سے متعلق صرف ویڈیو اور آڈیو کی شکل میں موجود ثبوت قابض حکومت کی فوج کی بربریت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں،خاص طور پر جب سے اس فوج نے مقبوضہ بیت المقدس میں عیسائیوں کے مقدس مقامات پر حملہ کرکے تمام سرخ لکیریں عبور کر لی ہیں، گذشتہ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف جارحیت کے ساتھ ساتھ صیہونی غاصب حکومت کے فوجیوں نے عیسائی شخصیات پر حملے اور ان کی اور ان کے مقدس مقامات کی توہین کرکے اسرائیلی فوج کے ریکارڈ میں ظلم و بربریت کا ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ ایک ایسا مسئلہ جسے صہیونی تجزیہ نگار شرم کا باعث سمجھتے ہیں۔
فلسطینیوں پر صیہونی فوجی جارحیت
آرمینیائی چرچ کے ایک فلسطینی اعلیٰ پادری نے بتایا کہ صیہونی فوج کے عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز اور غیر اخلاقی رویے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب مقبوضہ بیت المقدس میں عیسائیوں کے مارچ کے دوران صلیب کی عید کے موقع پر قابض حکومت کی فوج کی "گفاتی” بریگیڈ کے سپاہیوں نے ایک اعلیٰ عیسائی پادری کے منہ پر اور ان کی صلیب پر تھوک دیا جس کے بعد یہ جلوس صہیونی فوجیوں کی طرف سے عیسائیوں کے خلاف توہین آمیز منظر بن گیا، مقبوضہ فلسطین میں آرمینیائیوں کے نائب بشپ کورین نے اس تناظر میں کہا کہ جب صہیونی فوجی عیسائیوں کے جلوس کے قریب پہنچے اور انہوں نے پادریوں اور صلیب کو دیکھا تو ہر قسم کے ذلت آمیز اور مکروہ رویے کا مظاہرہ کیا۔
واضح رہے کہ یہ قابض حکومت کے فوجیوں کے غیر اخلاقی اور نسل پرستانہ اقدامات کی ایک مثال ہے جسے ویڈیو اور آڈیو شکل میں دستاویز کیا گیا ہے لیکن اس فوج کی طرف سے مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس کے باشندوں نیز دیگر فلسطینیوں کے خلاف جرائم کے ان گنت واقعات موجود ہیںجن کا اکثر میڈیا میں ذکر تک نہیں کیا جاتا،ایسے جرائم جو اس فوج میں اخلاق کی پابندی کے بارے میں اسرائیلی فوج کے تمام دعووں کو باطل کر دیتے ہیں۔
صیہونی حکومت کے کان چینل کے فوجی اور سکیورٹی امور کے نمائندے نے فلسطینیوں کے خلاف اس حکومت کی فوج کے انتہائی رویے کے بارے میں اپنے اعترافات میں فلسطینی ڈرائیوروں کو گرفتار کرنے، ان پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں 12 گھنٹے بھوکا رکھنے کے واقعے کا ذکر کیا،اس بنا پر اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کے تمام پیسے اور موبائل فون بھی ان سے چھین لیتے ہیں،اس کے علاوہ صہیونی میڈیا نے اعلان کیا کہ حالیہ مہینوں میں مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں فلسطینیوں کے خلاف پرتشدد حملوں میں اسرائیلی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا، خاص طور پر مغربی کنارے میں سرگرم "تسپار” اور ” نیتزاح یهودا ” بٹالین کی افواج فلسطینیوں کی تذلیل اور ان پر ظلم و ستم کرنے کے لیے تمام طریقے اور اوزار استعمال کرتی ہیں۔
صیہونی عبوری کابینہ کے داخلی سلامتی کے وزیر ” عومر بارلیو ” نے اس تناظر میں اعلان کیا کہ اسرائیلی معاشرے میں تشدد کا رجحان ختم نہیں ہو گا جس کا تازہ ترین واقعہ اسرائیلی فوج اور یروشلم میں حریدی گروپس کے درمیان ہونے والی پرتشدد جھڑپیں ہیں جہاں ان گروہوں نے پولیس کو موبائل فون کی دکان کو آگ لگانے والے ہریدی نوجوان کو گرفتار نہیں کرنے دیا، انہوں نے مزید کہا کہ ان جھڑپوں میں کچرے کے ڈبے جلانا، سڑکیں بند کرنا اور پولیس فورسز پر پتھراؤ شامل ہے جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے، یہ اسرائیلی معاشرے میں حریدی انتہا پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے تشدد کی واضح مثال ہے، یہ تنازعہ ایک موبائل فون پر ہوا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ صیہونی معاشرے کے کچھ حصے اسرائیلی قانون کو بالکل بھی تسلیم نہیں کرتے،صہیونی معاشرے میں بالعموم اور حریدی برادری میں جرائم اور تشدد کی سطح میں بالخصوص اضافہ اسرائیلیوں کے خوف کی سطح کو بڑھاتا ہے، خاص طور پر عسکری، سماجی اور سیاسی ڈھانچے میں حریدیوں کی طاقت کے ساتھ ۔
صہیونی صحافی "بن کسپٹ” نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ اسرائیل کے ڈھانچے پر حریدیوں کے کنٹرول کے پیش نظر ہمیں دیکھنا ہے کہ نئی کابینہ کیا کرے گی،تمام اسرائیلی جرائم پیشہ گروہوں کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن کوئی ان کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں کرتا، ہریدی لوگ آسانی سے سوچتے ہیں کہ ان کے لیے ہر چیز کی اجازت ہے اور وہ جو چاہیں کرتے ہیں، یہ مسئلہ مختلف سماجی طبقوں کی تشویش کا باعث بنا ہے،صہیونی سیاست دان حریدی گروہوں کی بے لگام پن پر فقط تشویش کا اظہار کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ انجام اور سزا کے خوف کے بغیر جو چاہیں کرتے ہیں اور ان کے انتہائی رویے پر کوئی نگرانی نہیں ہے،عربی زبان کے تجزیہ کار اور علاقائی تزویراتی امور کے ماہر "چارلس ابی نادر” نے کہا کہ صہیونی فوج میں انتہا پسندی اور غیر اخلاقی رویے کی کئی وجوہات اور رجحانات ہیں، اس حکومت کی تمام فوجی کارروائیاں صیہونیوں کی حد سے زیادہ دشمنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی عکاسی کرتی ہیں،یہ کارروائیاں بنیادی طور پر قابضین کی جانب سے مختلف علاقوں میں اسرائیل مخالف کارروائیاں تیز کرنے کے خوف کی وجہ سے کی جاتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوج میں قابض حکومت کے فوجیوں کے لیے تربیتی کورس کے دوران انھیں قتل و غارت ، دہشت گردی اور ظالمانہکارروائیوں کے عنوان سے بہت سے ایسے رویے سکھائے جاتے ہیں جو ہمیں دنیا کی کسی بھی فوج میں نظر نہیں آتے، اس کے علاوہ صیہونی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی حمایت کی وجہ سے جو استثنیٰ حاصل ہے اس کی وجہ سے یہ حکومت جان بوجھ کر ہر قسم کے غیر انسانی جرائم کی مرتکب ہونے کے علاوہ مزید گستاخ ہو گئی ہے،اس عرب ماہر نے درجنوں صیہونی جرائم کی طرف اشارہ کیا کہ جن کا ارتکاب اگر دنیا کی کسی اور فوج نے کیا ہوتا تو براہ راست بین الاقوامی عدالتوں سے رجوع کیا جاتا، دوسری طرف، چوری، نسل پرستی، جنسی حملے اور بد نظمی دیگر مسائل ہیں جو صہیونی فوج میں تشدد اور بے حیائی کے مسئلے میں اضافہ کو ظاہر کرتے ہیں۔