سچ خبریں: صیہونی حکومت اور امریکہ کے درمیان حال ہی میں جڑ پکڑنے والے اختلافات نے دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے کئی منظرناموں کے دروازے کھول دیے ہیں خاص طور پر چونکہ صیہونی حکومت اب امریکہ کے لیے اور اس ملک کے مفادات کے مطابق موثر عنصر نہیں سمجھی جاتی۔
لبنانی چینل المیادین کی ویب سائٹ نے ایک تجزیہ شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حال ہی میں مغربی اور صہیونی میڈیا اسرائیل اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر خاص توجہ کر رہے ہیں اس لیے کہ یہ اختلافات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں فریق اپنے مفادات کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ امریکہ نے ایک بار پھر ان تعلقات کا جائزہ لیا۔
تجزیہ کے مطابق ایسے وقت میں جب مغربی میڈیا امریکہ اسرائیل تعلقات کے تاریک ہونے اور امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اور بنیامین نیتن یاہو کی زیر قیادت قابض حکومت کے درمیان گہرے اختلافات کے بارے میں مسلسل بات کر رہا ہے،اسرائیلی میڈیا نے ابتدا میں اس کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی،اس نے دوطرفہ تعلقات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دونوں فریقوں کے درمیان صرف اختلاف رائے ہے۔
تجزیے کے مطابق جب تل ابیب اور واشنگٹن کے درمیان آہستہ آہستہ ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر اختلافات بڑھتے گئے تو انہوں نے ایک مختلف انداز اختیار کیا اور اس حقیقت کی تصدیق کی کہ اگرچہ اسرائیل کے امریکہ کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق دکھائی دیتے ہیں لیکن اندرونی طور پر دونوں فریقوں کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے جو پھیل تو سکتا ہے مگر کم نہیں ہوسکتا،واضح رہے کہ بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان گہرے اختلافات کے سائے میں، اگلے ہفتے منگل کو بائیڈن سے ملاقات کے لیے صیہونی حکومت کے صدر اسحاق ہرزوگ کا دورہ واشنگٹن اس بات کو مزید واضح کردیتا ہے۔
مزید پرھیں: امریکہ اور اسرائیل کے درمیان پہلا براہ راست تصادم
ان اختلافات کے بارے میں شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹ میں امریکی نیویارک ٹائمز میگزین کے مبصر اور کالم نگار تھامس فریڈمین” کہتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کی اقدار اور مفادات کے درمیان تصادم کے بارے میں بات کرنے کا مطلب ہے کہ دونوں فریقوں کا سفارتی نقطہ نظر الگ ہے نہ کہ فوجی اور سکیورٹی تعاون میں کوئی اختلاف ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ امریکہ اور صیہونی ریاست کے درمیان اختلاف کہاں ظاہر ہوا؟
1- صیہونی بستیوں کی تعمیر کے معاملے میں
امریکہ اسرائیل تعلقات میں دراڑ اس وقت منظر عام پر آئی جب بنیامین نیتن یاہو نے گزشتہ نومبر میں کابینہ سنبھالی، اس کے بعد میڈیا میں اس کشیدگی کو ظاہر کیا گیا، اس کے بعد نیتن یاہو نے دسمبر میں سخت گیر جماعتوں پر مشتمل ایک کابینہ تشکیل دی جو صیہونی حکومت کی تاریخ کی انتہائی سخت گیر اور انتہاپسند کابینہ تھی، یہاں پر جس چیز نے بائیڈن انتظامیہ اور نیتن یاہو انتظامیہ کے درمیان کشیدگی کو بڑھایا وہ اس قانون کی منسوخی تھی جو مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں اور بستیوں کی تعمیر کی اجازت نہیں دیتا تھا، اس کے علاوہ اس قانون کی منظوری جس نے بستیوں کی تعمیر کو 6 مرحلوں سے کم کر کے 2 مرحلے کر دیا، اس نے واشنگٹن کو اسرائیل کے سفیر مائیک ہرزوگ کی سرزنش کرنے اور ان تک اپنا احتجاج پہنچانے پر مجبور کیا، اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہ کارروائی غیر معمولی اور انتہائی نایاب اور بے مثال سفارتی طریقہ کار تھی۔
2- عدالتی اصلاحات
نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف امریکی صدر اور ان کی حکومت کی تنقیدیں صرف مغربی کنارے میں بستیوں کی توسیع کے معاملے تک محدود نہیں رہیں بلکہ اسے عدالتی اصلاحات کے قانون اور اس پر نیتن یاہو کی کابینہ کے اصرار تک بڑھا دیا گیا، اس بل کی منظوری کے خلاف صیہونی آبادکاروں کے احتجاج کا دائرہ وسیع ہونے کے بعد بائیڈن نے نیتن یاہو کو اپنا ذاتی اور خفیہ پیغام بھیجا اور اس قانون کی منظوری کے عمل کو روکنے نیز اس کے لیے کوئی درمیانی حل نکالنے کا مطالبہ کیا، بائیڈن کا نیتن یاہو کو خفیہ پیغام ملا پھر اس بل کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کی جانب سے نتین یاہو پر دباؤ ڈالا گیا تاکہ وہ نیتن یاہو کو اس قانون کی منظوری سے دستبردار ہونے پر راضی کر سکے۔ امریکی ذرائع کے مطابق بائیڈن کا خفیہ پیغام اس حوالے سے میڈیا میں آنے والے پیغام سے کہیں زیادہ سخت تھا۔
3- ایران کے ساتھ جوہری معاہدے
المیادین کے مطابق، مذکورہ بالا داخلی مسائل کے سلسلے میں صیہونی حکومت کے ساتھ امریکہ کے اختلافات، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے حوالے سے عمان کی ثالثی کے ساتھ واشنگٹن اور تہران کے درمیان سفارتی مذاکرات اور مفاہمت کے بارے میں منظر عام پر آنے والی خبروں کے بعد ہیں اس لیے کہ اسرائیل اس کی مخالفت کرتا ہے اور اس سے صیہونی حکام کو غصہ آیا نیز اس حکومت کے میڈیا نے ایرانی امریکی مفاہمت کو نیتن یاہو کی سنگین غلطیوں کا نتیجہ قرار دیا۔ اس دوران، جس چیز نے اسرائیل کو سخت مشتعل کیا وہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر اس کے اثر و رسوخ کی کمی تھی خاص طور پر چونکہ امریکہ نے نیتن یاہو کی کابینہ کو عمان کے ذریعے ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور تہران کے ساتھ افہام و تفہیم کی راہ میں ممکنہ پیش رفت کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کیں جس کی وجہ سے اسرائیل کے سیاسی اور سکیورٹی رہنماؤں نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
4- سعودی عرب کے ساتھ نارملائزیشن
جن معاملات نے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلافات کو مزید بڑھایا ان میں صیہونی حکومت کے ساتھ عرب اور اسلامی ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے دائرہ کار کو وسعت دینے کی کوششوں سے واشنگٹن کی دستبرداری اور سعودی عرب کو اس مسئلے پر قائل کرنا تھا، اس حد تک کہ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ مغربی کنارے میں حالیہ کشیدگی میں اضافے کی روشنی میں، ایسے معاہدے تک پہنچنا شاید ناممکن ہے، امریکہ کے اس موقف نے صیہونی حکومت کے حالیہ تمام میڈیا پروپیگنڈے اور ریاض کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں اس کی چالوں کو بے اثر کر دیا اور اس حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اعتراف کیا کہ سعودی عرب اس وقت صیہونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔
5- نیتن یاہو کے ساتھ بائیڈن کا اختلاف
نیتن یاہو کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان اختلافات میں بہت اضافہ ہوا نیز امریکی حکومت اور اسرائیلی کابینہ کے درمیان اختلاف رائے سے یہ بائیڈن انتظامیہ اور نیتن یاہو کے درمیان ذاتی تنازعہ میں بدل گیا اس لیے کہ وہ وائٹ ہاؤس کےناپسندیدہ شخص تھے،یہ مسئلہ بائیڈن کی طرف سے نیتن یاہو کو صیہونی حکومت میں دوبارہ وزیر اعظم بننے کے بعد امریکہ کے سفر اور وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت نہ دے کر ظاہر کیا گیا ،اس کے علاوہ، بائیڈن نے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں انہیں مدعو کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ادھر نیتن یاہو نے اپنی کابینہ کے وزراء کی بائیڈن سے ملاقات سے بھی منع کر دیا۔
ممکنہ منظرنامے
ایک فلسطینی تجزیہ نگار اور اسرائیلی امور کے ماہر حسن لافینے تین متوقع منظرناموں کا ذکر کیا ہے۔
1- اسرائیل اپنے کردار کی اصلاح کرے اور ایک بار پھر ایک موثر کابینہ بن جائے جیسا کہ امریکہ چاہتا ہے،اس سے اسرائیل کی داخلی سیاست میں امریکی حکومت کی مزید سنگین مداخلت کا دروازہ کھل جائے اورد ونوں کے درمیان صورتحال سابقہ حالت پر واپس آجائےگی۔ اس کے لیے کابینہ کی تبدیلی اور نئے مذہبی رجحان کے خلاف امریکہ کی حمایت یافتہ سماجی اور سیاسی رجحان کی تشکیل کی ضرورت ہے۔
2- امریکہ اور اسرائیل کے درمیان خلیج بڑھے گی جو مذہبی انتہا پسندی کی طاقت میں اضافے اور امریکہ اور اسرائیل میں معاشرے کی اندرونی تبدیلیوں میں اضافے کے ساتھ ہوگی جس کے بعد اسرائیل اپنی مدد اور حفاظت کے لیے دوسری جگہیں تلاش کرے گا،انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسرائیل اور امریکہ میں کچھ لوگ اس بارے میں سوچ رہے ہیں، لیکن اس آپشن کے لیے ایک طویل راستے کی ضرورت ہے۔
3- ان تعلقات میں جو لہر اور اس میں طاقت و کمزوری کا اتار چڑھاؤ جاری رہے گا جب کہ بعض ایسے واقعات جو اسرائیل اور امریکہ میں ملکی اور غیر ملکی سطح پر رونما ہو سکتے ہیں اس پر اثر انداز ہوتے رہیں گے۔
ان حالات کا ذکر کرتے ہوئے، لافی نے المیادین کو دیے جانے والے انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل اب امریکہ کے لیے ایک کارآمد ملک نہیں ہے اور اب اس حکومت کی حمایت کے لیے امریکہ کے مفادات میں نہیں ہے لہذا امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک خلا ہو گیا ہے،انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اب مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہیں، اور یہ خطے سے امریکہ کے انخلاء اور جنوب مشرقی ایشیا جیسے مزید اسٹریٹجک علاقوں کی طرف بڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلافات عروج پر
لافی کے مطابق اسرائیل اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے درمیان فرق کی جڑیں فیصلہ ساز شخصیات میں نہیں، بلکہ ایک موثر ریاست (اسرائیل) اور ایک معاون ریاست، یعنی امریکہ کے درمیان مفادات کی سطح میں ہے جیسا کہ فارن پالیسی اخبار نےاسٹیفن ایم کے ذریعہ "اسرائیل کے ساتھ خصوصی تعلقات ختم کرنے کا وقت” کے عنوان سے اپنے ایک تجزیہ میں اس کی طرف اشارہ کیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ اسرائیل تعلقات کس منظر نامے کا سامنا کریں گے؟