سچ خبریں:صیہونی حکام نے 1990 کی دہائی سے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو وہ اس پر حملہ کر دیں گے تاہم مختلف وجوہات کی بنا پریہ حکومت ان دھمکیوں پر عمل کرنے سے قاصر ہے۔
صیہونی حکام نے 1990 کی دہائی سے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار تک رسائی حاصل کرلی تو وہ اس پر حملہ کریں گے، ان دھمکیوں کے آغاز سے تین دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی نہ صرف صہیونی حکام کی وارننگ میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ حال ہی میں اس میں شدت آئی ہے۔ حکومت کی کابینہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ ایران پر حملے کے لیے خصوصی فنڈز مختص کرے گی اور اس حملے کی بظاہر ہدایات بھی سامنے آ چکی ہیں۔
لیکن صیہونی ایران پر حملہ کرنے کے ان نعروں میں کس حد تک سچے ہیں یادوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ بنیادی طور پر اسرائیل کے پاس ہے کیا، کیا ایران کے خلاف یہ نعرے اور دھمکیاں صرف میڈیا کے استعمال کے لیے ہیں؟ اس سوال کے جواب کے لیے صیہونی حکومت کی کمزوریوں اور کسی بھی فوجی تصادم میں ایران کی طاقت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
ذیل میں ایران اور اسرائیل کی فوجی طاقت یا کمزوری کے چند اشاریوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
1۔ ایران کی میزائل طاقت
فوجی معاملے میں ایران کی سب سے اہم طاقت زمین سے فضا میں مار کرنے والے اور زمین سے زمین پر مار کرنے والے بیلسٹک میزائل ہیں، ایران کے پاس شارٹ رینج 1000 کلومیٹر تک، درمیانی رینج1000 سے 3000 کلومیٹر کے درمیان تک مار کرنے والے تیز رفتار سے چلنے والے بیلسٹک میزائلوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے۔
2۔ حالیہ فوجی مشقیں
جب صیہونیوں نے ایران کے خلاف اپنی دھمکیوں میں شدت پیدا کی تو ایرانی پاسداران انقلاب نے حال ہی میں ایک مشق کا انعقاد کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو وہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کرے گا۔
3. ایران کے علاقائی بازو
صیہونی انٹیلی جنس حکام نے بارہا کہا ہے کہ صیہونی حکومت کا اصل مسئلہ ایران پر فوجی حملے میں نہیں بلکہ حملے کے بعد کے مرحلے میں ہے، ایران خطے میں ایک مرکزی طاقت کا پرچم بردار ہے جسے مزاحمت کہا جاتا ہے جس میں یمن کی انصار اللہ، لبنان کی حزب اللہ، فلسطینی مزاحمتی جماعتیں عراق اور شام میں عوامی تحریکیں شامل ہیں۔
4. اسرائیل کا حماس اور مزاحمتی گروپوں کے ساتھ جنگ کا تجربہ
آپریشن سیف القدس جو 10 مئی کو قدس اور مقبوضہ علاقوں پر مزاحمتی گروہوں پر حملے کے ساتھ شروع ہوا، صیہونیوں کے لیے بڑی حیرانی کا باعث بنا،اس آپریشن کے نویں دن تک 3600 میزائل داغے گئے جس کی وجہ سے مقبوضہ علاقوں کے 75 فیصد باشندے پناہ گاہوں میں جانے پر مجبور ہوئے۔
5۔ صیہونی دفاعی نظام کی ناکامی
2000 کے بعد سےصیہونیوں کی میزائل، جوہری، بحری اور فضائی کے شعبوں میں اپنی فوجی صلاحیتیں بڑھانے کے باوجودیہ حکومت مزید حملہ کرنے کے قابل نہیں رہی اور مزاحمتی قوتوں کی طرف سے داغے گئے کم فاصلے تک راکٹ بستیوں پر گرنے سے اپنا فوجی وقار کھو بیٹھی ہے، اس مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے تل ابیب نے میزائل سسٹم میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔
6۔ 1948 کی سرزمین میں موجودعرب آبادی
صیہونی حکومت کے چیلنجوں میں سے ایک 1948 کے علاقوں میں رہنے والے عربوں کا فعال ہونا ہے، آپریشن سیف القدس کے دوران ان علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں نے پہلی بار قابضین کا سامنا کیا جس نے اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
7۔ اسرائیلی فوج میں بحران
کسی بھی بڑے پیمانے پر جنگ میں اسرائیل کے دوسرے بحرانوں میں سے ایک اس حکومت کی فوج کی کمزوری ہے،اسرائیلی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر انتہا پسند یہودی اور ایتھوپیائی فوجی سروس چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔
8۔ امریکہ کا خطہ میں کسی نئی جنگ میں جانے کو تیار نہ ہونا۔
سعودی عرب نے 2015 میں امریکہ کے سہارے یمن پر حملہ کیا تھا، تاہم موجودہ تناظر میں امریکہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسے مشرق وسطیٰ میں کسی بھی نئے تنازع سے باز رہنا چاہیے کیونکہ یمنی تجربے نے امریکہ کو بہت بڑا سبق سکھایا ہے۔
9۔صیہونیوں کے پاس عمیق اسٹریٹجک کا فقدان
اسرائیل کے پاس عمیق اسٹریٹجک نہیں ہے جو خطرے کے وقت ایک بڑی کمزوری ہے، صیہونی حکومت کا سب سے بڑا عرض بلد اس کے مرکز میں 17 کلومیٹر، شمال میں 7 کلومیٹر اور جنوب میں 10 کلومیٹر ہے۔
نتیجہ
ایران کے ساتھ جنگ ایک ایسی چیز ہے جس کا میں تصور بھی نہیں کرنا چاہتا،یہ بیان صیہونی حکومت کی سلامتی کونسل اور وزارت خارجہ کے اعلیٰ ترین سطحوں پر کئی سالوں تک کام کرنے والے اران ایٹزیون نے تل ابیب اور تہران کے درمیان فوجی تصادم کے امکان کے بارے میں Haaretz کے ساتھ ایک تفصیلی انٹرویو میں دیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل مختلف وجوہات کی بنا پر ایران کے ساتھ مکمل تنازع میں داخل ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔