سچ خبریں:گزشتہ دو ہفتوں میں طالبان کی پیش قدمی اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، طالبان نے تقریبا دو مہینوں میں افغانستان کے تقریبا 200 شہروں پر قبضہ کرنے کے بعد دوسرے مرحلے میں قطر میں امریکہ کے ساتھ ساتھ بین الافغان مذاکرات کے دوران صوبائی دارالحکومتوں کو نشانہ نہ بنانے کے وعدے کے باوجودانھوں نے بڑے شہروں پر اپنے حملے شروع کر دیے اور ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں مغربی افغانستان میں نیمروز اور فرح صوبوں کے مراکز اور ایک طرف اسلامی جمہوریہ ایران کی سرحدوں کے قریب قبضہ کر لیا جبکہ اس ملک کے شمال میں جوزجان ، سرپول ، قندوز ، تخار ، بدخشان ، سمنگان اور بغلان صوبوں کے دارالحکومت بھی طالبان کے قبضے میں آگئے ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں میں 200 اضلاع پر قبضہ کرنے کی طالبان کی صلاحیت کا ایک جائزہ اس طرح لیا جاسکتا ہے کہ افغان سکیورٹی اور دفاعی افواج اور فضائی حملوں میں ان کی بھاری نقصانات کے بعد اس طرح پیش قدمی نیز پورے مغربی اور شمالی افغانستان پر قبضے کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاسکتا ،یہی وجہ ہے کہ اس پیشقدمی نے افغان ماہرین اور شخصیات کے درمیان تنازع کو جنم دیا۔
جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے اضلاع کی طرح ان علاقوں کو بھی طالبان نے بغیر کسی جھڑپ کے یا حکومتی افواج کے ساتھ تھوڑے سے تنازعے کے ساتھ اپنے قبضے میں لے لیا ہے جو خود اپنی جگہ قابل اعتراض ہے، تاہم ، جن صوبوں پر طالبان نے پچھلے ایک ہفتے کے دوران قبضہ کیا ہے ، سوائے نیمروز اور فرح کی حد تک ، طالبان کا گڑھ نہیں رہے ہیں اور نہ ہیں ، بلکہ یہ افغان حکومتی رہنماؤں اور ان سے وابستہ افراد کے گڑھ ہیں،شمالی اتحاد غیر پشتون قبائل جیسے تاجک ، ازبک اور ہزارہ پر مشتمل ہے جنہوں نے ہمیشہ طالبان کی سیاسی اور عسکری مخالفت کی ہے لہٰذا فطری طور پر ان علاقوں میں طالبان کی تیزی سے پیش قدمی آسان نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن کیا وجہ ہے کہ طالبان آسانی سے شمالی افغانستان پر قابض ہو جاتے ہیں؟ ایسی صورت حال نے افغان حکومت کی نسلی قیادت اور طالبان کے درمیان ملی بھگت کے امکانات کے تجزیوں کو بڑھا دیا ہے ۔
معلوم ہوتا ہے کہ افغان حکومت کی سیاسی اور عسکری قیادت میں موجود ایک نسلی گروہ (پشتون) سے وابستہ افراد اور گروہوں نے طالبان کے لیے راستہ صاف کرنے کا کام کیا ہے،بدقسمتی سے گزشتہ 20 سالوں میں امریکہ کی شیطانی اور واضح پالیسیوں کے نتیجے میں افغانستان کے لوگ عدم اعتماد اور علیحدگی کی دیواریں توڑنے نیز مشترکہ اور قومی مفادات کی خاطر متحد ہونے اور ایک واحد قوم بن جانے میں ناکام رہے ہیں۔
تاہم آج مسئلہ یہ ہے کہ امریکی قیادت بے شرمی سے کہتی ہے کہ وہ نیشنلائزیشن کے لیے افغانستان نہیں گئے ، جبکہ اس نے ہمیشہ اپنے شہریوں کے جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے اوزاروں اور بہانوں سے قوم پرستی مخالف نقطہ نظر کی پیروی کی ہے۔