سچ خبریں:آل سعود کی حمایت سے سعودی عرب میں نسل پرستانہ مہمات میں اضافہ ہوا ہے اور فسطائی تحریکوں کے ساتھ ساتھ سائبر کارکن بھی ان مہمات میں سرگرم ہیں۔
سعودی عرب میں ریاستی سرپرستی میں نسل پرستانہ مہمات کے ابھرنے میں غیر معمولی ترقی دیکھنے کو مل رہی ہے جن میں تازہ ترین مہم فاشزم کی حقیقت کو برقرار رکھنے کے لیے حجاز کی شناخت پر حملہ ہے، سعودی لیکس کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے برسراقتدار آنے کے بعد اس ملک میں نسل پرستانہ مہمات اور اقدامات کو مزید شدت کے ساتھ جاری رکھا گیا ہے نیز یہاں عوامی سطح پر فاشسٹ رویوں اور تحریکوں کے تسلط دیکھنے کو مل رہا ہے۔
آل سعود کی مخالف جماعت ” التجمع الوطنی ” سے وابستہ "صوت الناس” (عوام کی آواز) اخبار نے لکھا کہ تفریحی ادارے کے سربراہ ترکی آل شیخ کے ٹویٹ کے بعد اور سعودی عرب کے انٹرٹینمنٹ بورڈ کو اس ملک کے سوشل میڈیا پر ایک وسیع تنازع کا سامنا کرنا پڑا، اس ٹوئٹ میں آل شیخ نے”الغبانہ” کے نام سے مشہور حجاز کے روایتی لباس میں آرٹ مقابلے میں شرکت کرنے والوں میں سے ایک پر تنقید کی۔
ترکی آل شیخ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ کوئی بھی میوزک گروپ یا تفریحی سرگرمی اس لباس کو قبول نہیں کرے گی، کیونکہ یہ لباس ہمارے لیے اجنبی ہے اور حجاز کی شناخت کی نمائندگی نہیں کرتا نیز ہماری تاریخ کو مسخ کرتا ہے، اس متنازعہ بیان کے بعد آل سعود کے قریبی شخصیات کی طرف سے آل شیخ کے موقف کی حمایت میں کئی مہمیں چلائی گئیں جن میں خود کو قومی تحریک کہلاوانے والے سائبر صارفین بھی سعودی فاشسٹوں کے ساتھ سرگرم نظر آئے۔
دوسری طرف حجازی برادریوں میں ان کی وسیع ثقافتی شناخت پر اس نسل پرستانہ حملے اور ان کے ورثے جو کثرتیت اور تنوع سے مالا مال ہے، کو پسماندہ اور مٹانے کی کوشش کے لیے بڑے پیمانے پر غصہ اور مذمت کی گئی، رپورٹ کے مطابق حجاز کی شناخت کئی سالوں سے اپنے فکری، مذہبی، ثقافتی ، سماجی تنوع ، اپنے اصل ورثے اور اس کے قبائلی تعلقات پر حکومت کرنے والے سمجھوتہ اور بقائے باہمی کی وجہ سے مشہور ہے، یاد رہے کہ جو لوگ آج حجازی شناخت پر حملہ کرتے ہیں اور اپنے قبائل کی شناخت کے تحفظ کا دعویٰ کرتے ہیں، یہ ان علاقوں میں بالکل نہیں رہتے اور نہ ہی ان کا اس مسئلے سے کوئی تعلق ہے،یہ حجازی معاشرے، اس کی متنوع ساخت اور تاریخ کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے۔
سعودی لیکس نے مزید لکھا کہ اس مہم میں ان مضحکہ خیز جوازوں پر توجہ دی گئی جو ایک بڑی لاعلمی کو ظاہر کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیا گیا کہ مقصد ایک قسم کا لباس پہننے سے روکنا نہیں ہے بلکہ یہ کہنے سے روکنا ہے کہ یہ سعودی ثقافت اور ورثے کا حصہ ہے، یہ ثقافت، ورثہ اور شناخت کے تصورات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے، الغبانہ حجازی برادری کے لباس اور ورثے کا ایک اہم حصہ ہے، اس کے مستند ہونے یا نہ ہونے کی بحثوں سے قطع نظر یہاں کے لوگ اپنے لباس کو میراث سمجھتے ہیں ، اب ہم انہیں کیسے بتائیں کہ ان کا لباس اور وہ ثقافتی شناخت جو سینکڑوں سالوں سے محفوظ ہے اور سعودی عرب کے قیام کے پہلے سے موجود تھی، اس کا قومی شناخت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ان دنوں نسل پرستانہ مہمات میں نئی بات یہ ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے ترکی آل شیخ جیسی شخصیت کے ذریعے اس کی باضابطہ قبولیت ہے، جو موجودہ ولی عہد کے چند قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں، واضح رہے کہ سعودی حکام ان مہمات کا حصہ ہیں اور انہوں نے حجاز کی ثقافت اور ورثے کے خلاف محض نسل پرستانہ حمایت سے آگے بڑھ کر اسے دبانے اور کسی بھی عوامی سرگرمی میں ظاہر ہونے سے روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ درحقیقت نجد کی حدود سے باہر کسی بھی ثقافت، ورثے اور تاریخ کو دبانے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی ورثہ اور شناخت کے تحفظ جیسے مضحکہ خیز بہانے کا منصوبہ اس نکتے کو مسلط کرنا ہے کہ سعودیوں میں ایک مشترکہ شناخت اور ثقافت ہونا چاہیے اور سب کے لیے یکساں رسم و رواج ہونا چاہیے، جو کوئی بھی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے یا اس کے خلاف کوئی بھی چیز تاریخ کو مسخ کرنا اور ورثے کو نقصان پہنچانا ہے جس کا مقابلہ کرنا اور دبانا چاہیے۔
یاد رہے کہ یہ ایک انتہاپسندانہ فاشسٹ نظریہ کو مسلط کرنا ہے جس کی بنیاد حکومت میں صرف ایک کردار اور ایک خاص علاقے تک محدود ہونا ہے جو اپنی مخالف کسی بھی سوچ، ثقافت اور عقیدے کو دبانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ ملک کا تصور ایک خطہ، ایک شخصیت یا ایک چھوٹے اور محدود نظریے سے بہت بڑا اور وسیع ہے، ملک میں متنوع ثقافتیں اور ضروریات شامل ہیں جو قومی شناخت کی طاقت بنتی ہیں اور اس شناخت کو جامع اور متنوع بناتی ہیں اور مختلف گروہوں کو شامل کرتی ہیں۔
سعودی لیکس نے آخر میں لکھا کہ یہ وہ نکتہ ہے جسے سعودی عرب کے قومی فاشسٹ نہیں سمجھ سکتے کہ قومی شناخت جامع اور تمام داخلی ثقافتوں پر مشتمل ہونی چاہیے۔ یہ ثقافتیں ایک دوسرے سے متعلق ہیں اور ان میں کوئی مستند یا غیر مستند نہیں ہے، اسے معاشرے کے تمام گروہ اپنی ثقافت، ورثے اور تاریخ کے ساتھ مل کر تشکیل دیتے ہیں جسے قومی ثقافت کہا جاتا ہے۔