کراچی:(سچ خبریں) اداکار حسن احمد نے اپنے ساتھ 2012 میں ہونے والے اغوا کے واقعے سے متعلق پہلی بار تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اغواکاروں نے ان کی آنکھ میں پٹی اور پیروں میں زنجیریں باندھ لی لیکن ملزمان نے ان کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کیا، چائے، پانی اور سگریٹ کی بھی آفر کی اور واپس گھر جانے کے لیے اغوا کے ماسٹرمائنڈ نے ٹیکسی بُک کروائی اور 500 روپے کرایہ بھی ادا کیا۔
حسن احمد نے تابش ہاشمی کے پروگرام ’ہنسنا منع ہے‘ میں شرکت کی جہاں انہوں نے 2012 میں ہونے والے اپنے ساتھ اغوا کے واقعے پر تفصیلی گفتگو کی۔
حسن احمد کے اغوا سے متعلق ان کی اہلیہ اور معروف ماڈل سنیتا مارشل کئی انٹرویوز میں پہلے ہی مختصراً بتا چکی ہیں کہ ان کے شوہر کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا اور ان کے شوہر 35 دن تک اغوا کاروں کے قبضے میں رہے تھے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے شوہر کو بازیاب کروانے میں سی پی ایل سی نے ان کی بہت مدد کی اور انہیں تاوان کے پیسے بھی ادا نہیں کرنے پڑے جب کہ ایک اغوا کار کو بھی گرفتار کیا گیا۔
تاہم سنیتا نے اس حوالے سے مزید تفصیلات شئیر نہیں کی تھیں، اب ان کے شوہر حسن احمد نے تقریباً 11 سال قبل اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اغواکار کسی اور کو اغوا کرنا چاہ رہے تھے لیکن انہوں نے سمجھا کہ اتنی محنت کرلی ہے تو مجھے اغوا کرلیا۔‘
اداکار نے کہا کہ ’اغواکاروں نے تاوان کے لیے ابتدائی طور پر 10 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔‘
حسن احمد نے ہنستے ہوئے بتایا کہ اغواکار اچھے اور خاندانی لوگ تھے، ’اغوا ہونے کے بعد شروع کے 10 دن بہت بُرے گزرے، پیروں میں زنجیریں، آنکھوں میں پٹی اور دونوں ہاتھ باندھ کر کمرے کے کونے میں بٹھادیا تھا، اتنا ڈر چکا تھا کہ کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔‘
اس دوران اغواکاروں نے مجھے دھمکی دی کہ وہ لکڑی کاٹنے والا آرے سے میری ہڈیاں توڑ کر گٹر میں ڈال دیں گے، اس وقت ڈر لگتا تھا لیکن بعد میں ہنسی بھی آتی تھی کہ شاید مزاق کررہے ہیں اور صرف ڈرانے کے لیے ایسا کررہے ہیں، انہوں نےمجھے اچھے برینڈ کی سگریٹ بھی لا کر دی۔’
اغواکاروں کا مقصد تھا کہ میں بیمار نہ ہوں اور انہیں تاوان کے پیسے پورے ملیں لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
انہوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اغواکار میری اہلیہ سنیتا سے ہی فون پر بات کرتے تھے، انہوں نے سنیتا کو کہا کہ آپ ہی پیسے دینے آئیں گی لیکن اہلیہ نے بہانہ بنایا کہ وہ نقاب کرتی ہیں، اغواکاروں کو نہیں معلوم تھا کہ ہم دونوں میاں بیوی اداکار ہیں۔
حسن احمد نے بتایا کہ میرے دوست دانش خواجہ تاوان دینے کے لیےاغوا کاروں کے مخصوص مقام پر جانے کیلئے راضی ہوگئے، اس دوران ایجنسی کے لوگ بھی سادہ کپڑوں میں موجود تھے، جیسے ہی دوست نے اغواکاروں کے ساتھ تاوان کا تبادلہ کیا تو وہاں فائرنگ شروع ہوگئی، اس دوران ایک لڑکے کو ٹانگ پر گولی لگی اور اغوا کا ماسٹر مائنڈ فرار ہوگیا۔
انہوں نے بتایا کہ تاوان کے لیے اغواکار 10 لاکھ روپے میں راضی ہوگئے تھے لیکن فائرنگ شروع ہونے کے بعد وہ یہ رقم لینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
حسن احمد نے بتایا کہ اس تمام صورتحال میں وہ خود فائرنگ کی جگہ پر نہیں بلکہ اغواکاروں نے انہیں کسی اور مقام پر چھپا دیا تھا۔
’جب اغوا کا ماسٹر مائنڈ فرار ہوا تو ایجنسی والوں نے سمجھا کہ اب میں زندہ نہیں بچ پاؤں گا کیونکہ اغواکار کا کرائم کا ریکارڈ تھا، ایجنسی کے افسران نے ریکارڈ کی مدد سے اغواکار کی فیملی کو حراست میں لے لیا۔‘
انہوں نے اپنے بازیاب ہونے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’اغوا کے ماسٹر مائنڈ نے جب مجھے اپنے ساتھ چلنے کا کہا اور میری کمر پر ہاتھ رکھا تو اس کے ہاتھ میں پستول تھی، اغوا کار نے دھمکی دی کہ اگر میں نے کوئی فضول حرکت کی تو وہ مجھے مار دیں گے، آخر کار اس اغواکار نے مجھے چھوڑ دیا اور مجھے پولیس افسر سے فون پر بات کروائی، پولیس افسر مجھے لینے کے لیے آرہے تھے لیکن میں نے انہیں منع کردیا اور اکیلے واپس جانے کی درخواست کی۔ ’
حسن احمد نے کہا کہ چونکہ اغواکار کی فیملی پولیس کی حراست میں تھی اس لیے اس نے مجھے ایک سوسائٹی میں چھوڑا اور گھر واپس جانے کے لیے ٹیکسی بُک کروائی اور 500 روپے کرایہ ادا کیا اور 4 سگریٹ بھی دیں۔’
اداکار نے کہا کہ گھر پہنچنے کے بعد میں ’اسٹاک ہوم سینڈرم‘ کا شکار ہوگیا تھا۔ (ایک ایسی ذہنی بیماری جس میں یرغمالی کے اپنے اغوا کار کے ساتھ تعلق، شناخت یا ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے۔)
حسن احمد نے کہا کہ گھر پہنچنے کے بعد میں نے اپنے دوست سے کہا کہ وہ اغواکار جو مجھے چائے پانی دیتا تھا اسے پولیس کی حراست سے آزاد کروالیں، کئی دنوں نے میں انہیں درخواست کرتا رہا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اغواکار آزاد ہونے کے قابل نہیں ہے اور مجھے ’اسٹاک ہوم سینڈرم‘ ہوچکا ہے۔