اسلام آباد: (سچ خبریں) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ 9 مئی سے متعلق صرف 6 مقدمات میں 33 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے بتایا کہ 9 مئی کے واقعات سے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ آکر حقائق سامنے رکھوں۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو ہوئی ہنگامہ آرائی پر ملک بھر میں 449 مقدمات درج ہوئے، جس میں 88 انسداد دہشت گردی ایکٹ جبکہ 411 دیگر قوانین کے تحت درج کے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر سے انسداد دہشتگردی کے مقدمات میں 3 ہزار 946 افراد کو حراست میں لیا گیا جس میں پنجاب میں 2 ہزار 588، خیبرپختونخوا میں 11 سو افراد کو گرفتار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دیگر مقدمات میں 5 ہزار 536 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 80 فیصد ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ 449 ایف آئی آرز میں سے صرف 6 کو پراسس کیا جارہا ہے جس میں 2 پنجاب جبکہ 4 خیبرپختونخوا میں ہیں جن کا ممکنہ ٹرائل فوجی عدالت میں ہوسکتا ہے، لیکن فضا ایسی بنائی جارہی ہے جیسا سب کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملزمان کی مجموعی تعداد میں سے پنجاب میں صرف 19 کو اور خیبرپختونخوا میں 14 یعنی مجموعی طور پر 33 کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا باقی کسی جگہ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوجی حکام مقدمات کی تفتیش کریں گے لیکن پورا ٹرائل شفٹ نہیں ہوگا، وہ یہ دیکھیں گے کہ کیس میں کہاں کہاں ملٹری ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔
مثال دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے بتایا کہ اگر ایک اے ٹی اے کے کیس میں 300 ملزمان میں سے 10 ایسے ہیں جنہوں نے ملٹری یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی تو اس پر فوجی ٹرائل صرف ان کی حد تک محدود ہوگا بقیہ ملزمان کے ٹرائل عام عدالتوں میں چلیں گے۔
ایک سوال پر انہوں نے واشنگٹن میں ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل میں کی گئی ہنگامہ آرائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ایسی تنصیبات نہیں تھیں، لندن فسادات میں ملوث افراد سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا جس نے اسپیکر کے ٹیبل پر تصویر کھچوائی تھی اسے 4 سال سزا ہوئی تھی وہاں تو زلمے خلیل زاد نے تو کوئی ٹوئٹ نہیں کیا، وہاں انہیں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نظر نہیں آرہی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ ممنوعہ علاقوں میں کوئی بھی ملزم گھستا ہے تو اس کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہے نہ نیا قانون یا فوجی عدالت بنانے کی ضرورت ہے، وہ پہلے سے موجود ہیں اور اپنا کام کر رہی ہیں اور دفاع سے متعلق معاملات پر ان کا پورا دائرہ اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ جناح ہاؤس صرف کور کمانڈر کی رہائش گاہ نہیں بلکہ ان کا کیمپ آفس بھی تھا جہاں حساس نوعیت کی چیزیں موجود تھیں، مثلاً اگر کوئی وہاں لیپ ٹاپ ہوگا تو اس میں حساس معلومات ہوں گی، اس مقامات تک رسائی کی گئی چیزیں جلا دی گئیں یا انہیں اٹھا لیا گیا تو ان کی ریکوری فوجی حکام کریں گے یا کوئی اے ایس آئی کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کتنا حساس معاملہ ہے کہ اگر وہاں سے اٹھائی گئی کوئی چیز ہمسایہ ملک سے استعمال ہوتی ہیں تو اس کے کیا اثرات ہوں گے تو کیا یہاں سیاسی احتجاج کے خلاف ایکشن ہورہا ہے؟ آخر ریاست کے دفاع کا مسئلہ ہے۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا یہ معاملہ وفاقی حکومت کی صوابدید، وزیراعظم یا آرمی چیف کی مرضی نہیں ہے بلکہ یہ ریاستی ذمہ داری ہے، دفاع پاکستان کی ذمہ داری ہےکہ اگر کسی نے دفاع سے متعلق کسی مقام میں داخلہ کیا وہاں سے کوئی چیز اٹھائی یا جلائی تو اس کا ٹرائل اور کسی قانون کے تحت نہیں ہوسکتا صرف ملٹری اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے ہی تحت ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پابندی ہے، کوئی خواہش نہیں اور اس کا سسٹم موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملٹری ایکٹ گزشتہ 71 سال سے نافذ ہے، اسے بار بار مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا گیا لیکن اسے کالعدم قرار نہیں دیا گیا کیوں کہ اس کی ضرورت ہے، اس کے بغیر آپ ان علاقوں کا دفاع نہیں کرسکے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ جو لوگ ان ممنوعہ علاقوں میں داخل نہیں ہوئے اور صرف باہر نعرے لگائے اور احتجاج کیا انہیں اس ٹرائل میں شامل نہیں کیا جائے گا، اسی طرح جو ان علاقوں میں داخل ہوئے لیکن حساس مقامات پر نہیں گئے اور وہاں توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ نہیں کیا انہیں بھی شاید اس عمل سے باہر رکھا جائے گا۔
تاہم جو لوگ ان حساس علاقوں میں داخل ہونے، وہاں جلاؤ گھیراؤ کرنے اور چیزیں اٹھانے میں ملوث پائے جائیں گے جن کی شناخت کی ایک نہیں بلکہ 3، 4 سے زیادہ ذرائع سے تصدیق ہوگی وہ ملزم خود کہے گا کہ یہ میں ہی ہوں، میں نے ہی وہاں آگ لگائی، یہ میرا ہی اکاؤنٹ ہے میں نے ہی یہ واٹس ایپ میسج کیے وغیرہ۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ نفرت کی سیاست ایک ناسور کی طرح پاکستان کی سیاست اور معاشرے میں داخل کی جارہی تھی جس میں اندرونی اور بیرونی سہولت کار شامل تھے۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ایک پروگرام کے تحت پاکستان کی سیاست کو پراگندا کرنے اور پاکستانی معاشرے کو فتنے اور فساد سے دو چار کرنے کے لیے بڑے حساب کتاب سے ایک کوشش جاری تھی، باقاعدہ اس پروگرام کے تحت 25 مئی کو اسلام آباد کا گھیراؤ کرنا تھا، اس کے بعد کبھی شارٹ تو کبھی لانگ مارچ، اپنے قتل کی کہانیاں گھڑنا، حساس اداروں کے افسران کو نام لے کر موردِ الزام ٹھہرانا، انسانوں کا سمندر جمع کر کے دارالحکومت پر حملہ آور ہونا، اسمبلیوں کو توڑنا، ملک میں افراتفری اور سیاسی عدم استحکام پھیلانے، فتنہ وفساد پھیلانے کے لیے مختلف قسم کے حربے اپنانے کا عمل جاری رہا۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ میں بار بار کہتا ہوں کہ عمران خان ایک فتنے کا نام ہے اگر قوم نے اس کا ادراک نہ کیا تو یہ کسی حادثے سے دوچار کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات پر ایسا کہا تو نہیں جاسکتا لیکن شاید اللہ کو اس قوم کی بھلائی مقصود تھی کہ اس سے پہلے کہ یہ فتنہ ایسی شکل اختیار کرتا کہ قوم و ملک کو کسی حادثے سے دوچار کرتا اس نے خود ہی اپنے آپ کو اور اپنی جماعت کو حادثے سے دوچار کرلیا۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات نے موقع دیا کہ قوم اس فتنے کا ادراک کرے اور اس سے اپنے وجود کو پاک و صاف کرے۔