کراچی: (سچ خبریں) ملک میں ہوش ربا مہنگائی کی حالیہ لہر اور معاشی بحران کے باعث عوام اب روزمرہ کی ضروریات، جیسے بجلی کے بل، اسکول کی فیس، مکان کا کرایہ اور دیگر اخراجات پورے کرنے میں سخت مشکلات کا شکار ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق زبیدہ بی بی ایک بیوہ خاتون ہیں جو ٹیکسلا کی بلال کالونی میں کرائے کے مکان میں رہتی ہیں۔
جب اگست کے بجلی کے بل گھریلو بجٹ میں ادا نہیں کیے جاسکے تو ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ اپنی تین دہائیوں پرانی منگنی کی انگوٹھی ایک پڑوسی کے پاس گروی رکھوا کر بل ادا کرنے کے لیے رقم ادھار لیں۔
وہ اپنی پنشن حاصل کرنے کے بعد انگوٹھی واپس حاصل کرنے کے لیے پر امید تھیں جو ابھی جاری ہونی ہے۔
کراچی کے رہائشی 40 سالہ احمد زمان اپنے چھ افراد کے خاندان کے واحد کفیل ہیں، ان کی ماہانہ ایک لاکھ 50 ہزار روپے تنخواہ گزشتہ برس تک گھریلو اخراجات کے لیے کافی تھی لیکن اب نہیں ہے۔
انہوں نے ڈان کو اپنے روز مرہ کے اخراجات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ رواں ماہ میں نے اپنی بیوی سے مدد مانگی اور اس نے اپنی سونے کی بالیاں بیچ دیں جو اسے ہماری شادی پر ملی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں جس گھر میں رہتا ہوں اس کا کرایہ 35 ہزار روپے ہے، میرا بجلی کا آخری بل 40 ہزار روپے سے زیادہ تھا۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے رہائشی 25 سالہ حسین شبیر نے ڈان کو بتایا کہ اس وقت ان کے 7 رکنی خاندان میں سے 3 افراد کما رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کے لیے اپنے اخراجات پورے کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔
حسن شبیر نے بتایا کہ میرے والد، بھائی اور میں کام کرتا ہوں، ہماری مجموعی آمدنی تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار روپے ہے لیکن گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران مجھے مہینے کے اختتام کے قریب دوستوں سے پیسے ادھار لینے پڑے، میرے لیے یہ قرض کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بنتا جا رہا ہے، حسن شبیر کے خاندان نے قرض ادا کرنے کے لیے اپنی کار تک بیچ دی ہے۔
وہ لوگ جنہیں اثاثے بیچنے یا قرض لینے کی اشد ضرورت نہیں ہے وہ وہ بھی اپنے ایسے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بنیادی ضروریات سے متعلق نہیں ہیں۔
31 سالہ سمیر راشد حال ہی میں باپ بنے ہیں، ان کا خیال تھا کہ ماہانہ ایک لاکھ روپے کی آمدنی ان کے اہل خانہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوگی لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ صرف میرے نومولود بچے کے اخراجات 12 سے 13 ہزار روپے ہیں، رواں ماہ بجلی کا 30 ہزار روپے ادا کیا، موٹر سائیکل کے ذریعے کام پر جانے کے لیے 13 ہزار روپے کا پیٹرول خرچ ہوتا ہے، اس کے علاوہ راشن اور دیگر ضروری اخراجات ہیں، میں نے خرچوں کی وجہ سے فیملی فنکشنز اور دیگر تقریبات میں جانا چھوڑ دیا ہے۔’
اگرچہ اخراجات کو معقول بنانا بحرانی معاشی صورتحال کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتا ہے لیکن یہ ریٹیلرز اور دیگر صنعتوں سے وابستہ افراد کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔
ٹیکسلا کے علاقے لالہ رخ میں پولٹری کی دکان کے مالک احسان علی نے بتایا کہ ان کی فروخت پہلے کے مقابلے میں تقریباً 60 فیصد تک گر گئی ہے، گاہکوں کی تعداد میں کمی کے درمیان وہ اپنی دکان کو چلانے کے لیے ہوٹلوں، ریسٹونٹس اور شادی ہالوں پر انحصار کر رہے ہیں۔
احسان علی نے ڈان کو بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے مرغی کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں، گاہک اب گوشت کی بجائے پوٹا، کلیجی اور پنجے خریدتے ہیں۔
ٹیکسلا چوک پر ہوٹل چلانے والے آفتاب حسین نے اپنے چائے کے آرڈرز کی تعداد میں واضح کمی دیکھی ہے۔
انہوں نے ڈان کو بتایا کہ میرے زیادہ تر گاہک اب پورے کپ کی بجائے کٹ (آدھا کپ) چائے کا آرڈر دیتے ہیں، اسی طرح ہوٹل میں گوشت کے سالن جیسے قیمہ، قورمہ کی بجائے اب زیادہ تر صارفین سبزیوں اور دال جیسی سستی ڈشز کو ترجیح دیتے ہیں۔
فیصل شہید روڈ پر واقع مدرسے کے منتظم ہمایوں بٹ کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران داخلوں کی تعداد دوگنی ہو گئی جب کہ لوگ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں سے نکال کر دینی مدارس کا انتخاب کر رہے ہیں۔
یہاں تک کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اپنے بچوں کو مدرسے میں داخل کر ارہے ہیں جہاں طلبہ کو مفت رہائش فراہم کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بنیادی طور پر یتیم، کم آمدنی والے یا مذہبی پس منظر والے بچے مدرسے میں داخلہ لیتے تھے لیکن صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بدل رہی ہے، اب لوگ اپنے بچوں کو کھانا کھلانے کے قابل نہیں رہے اور بچوں کو ایسے اداروں میں داخل کرا رہے ہیں جہاں مفت کھانا اور رہائش فراہم کی جاتی ہے۔