اسلام آباد:(سچ خبریں) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے کا اختیار محدود کرنے کے حوالے سے کی جانے والی قانون سازی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی ٹائمنگ پر سوالیہ نشان ہے۔
واضح رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ آج ہی قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا تھا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی جبکہ چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔
نجی نیوز چینل ’جیو‘ کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں اینکر پرسن حامد میر سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 پر گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ کہ کل قومی اسمبلی پیش کردہ بل جس میں از خود نوٹس کے اختیارات کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اس بل کی ٹائمنگ پر سوالیہ نشان ہے، اس میں سپریم کورٹ کے ساتھ اتفاق رائے ہوجائے تو بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے یہ بل ابھی نہیں دیکھا، میں نے ڈرافٹ دیکھا، جب بل آئے گا تو دیکھ کر اس کی منظوری کے حوالے سے فیصلہ کروں گا، بحران کو بڑھانے کے لیے بلکہ اس کو حل کرنے کے لیے کردار ادا کروں گا۔
اس سوال پر کہ کل قومی اسمبلی میں منظور کردہ قرارداد میں عدالت میں سیاسی مداخلت کا الزام لگایا گیا، اس پر صدر نے کہا کہ جب اداروں یا انسان پر پریشر آتا ہے تو کریکس نظر آتے ہیں، جب عدالتوں پر پریشر پڑھتا ہے تو اس میں دراڑیں نظر آتا ہے، مجھے تمام اداروں میں کریکس اور پریشانی نظر آرہی ہے، اس کی وجہ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام اداروں میں انسان موجود ہیں، اس وقت ملک اور آئین کو بچانے کی ضرورت ہے، غصے اور دباؤ میں وہ فیصلے اور الفاظ ادا کیے جاتے ہیں جو عام طور پر ادا نہیں کیے جاتے، وہ نہیں کرنے چاہییں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب کے انتخابات کے شیڈول کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی، اس فیصلے میں تمام ادارے موجود ہیں، اداروں نے کہا کہ سیکیورٹی نہیں دے سکتے، کسی نے کہا کہ فنڈز نہیں دے سکتے، الیکشن ڈیوٹی کے لیے ججز نہیں دے سکتے، اس طرح تو ہر حکومت چاہے گی کہ اس کی مدت طویل ہوجائے۔
صدر مملکت نے کہا کہ جب جمہوری قوتیں آپس میں لڑی تو غیر جمہوری قوتوں کے آنے خطرات بڑھ جاتے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ مارشل لا لگ سکتا ہے، لیکن آئین کو مسخ نہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے جو وعدے کیے گئے، اس پر قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا میں نے اپنے خط میں انسانی حقوق کی پامالی کی بات کی، میں نے اپنے خط میں پی ٹی آئی دور کے معاملے کا بھی ذکر کیا، میں نے لکھا کہ 2021، 2022 میں انسانی حقوق کی پامالی ہوئی، اس میں 2023 میں اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ آوارڈز دینے کے حوالے انہوں نے کہا وزیراعظم کے خط میں اس کا جواب ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آپ کا کردار ایڈوائزری کا ہے، میں نے عمران خان کی حکومت میں بعض ایوارڈز پر سوال اٹھائے تھے کہ آئین کا مس کیرج ہو رہا ہے، آئین میں لکھا کہ وزیراعظم اور کابینہ کسی کو کوئی ایوارڈ نہیں دے سکتے، یہ اختیار صدر کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے، اس میں ایشو نہیں ہے، اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی تعریف بھی واضح ہونی چاہیے، مجھ پر بھی دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا، کیا دنیا میں اسی طرح سے دہشت گردی کی تعریف کی جاتی ہے۔
قمر باجوہ اور عمران خان کی ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں اختلافات اور دوریاں کم کرنے کی کوشش کی، موجودہ آرمی چیف سے ملاقاتی ہوتی ہے تو انہیں ہمیشہ مثبت پایا، جب آرمی نے کہا کہ وہ سیاست سے دور ہونا چاہتی ہے تو اب سیاست دانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔
انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین پاکستان ، شملہ معاہدہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کے کارنامے ہیں، ان کا آئین بنانے میں بہت اہم کردار تھا، وہ بہت ذہین آدمی تھے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ میں ایک گفتگو کے دوران عمران خان کو کہا کہ 2023 اکتوبر کے الیکشن بھی خطرے میں ہیں، حکومت کہتی ہے ہم نے ملک بچایا، ملک کے لیے قربانی دی، اب وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن ہوئے تو وہ اڑ جائیں گے، ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ کسی کو نا اہل نہیں ہونا چاہیے، نواز شریف کو بھی نا اہل نہیں ہونا چاہیے تھا، آصف زرداری نے متحرمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، اس وقت حالات بہت خراب تھے، ملک ٹوٹ سکتا تھا، میں سابق صدر کو اس کا کریڈٹ دیتا ہوں۔
بینچز کی تشکیل کے حوالے سے قومی اسمبلی سے آج ترامیم کے بعد منظور کیے گئے بل میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔