اسلام آباد(سچ خبریں) راولپنڈی میں پیپلز پارٹی ذوالفقارعلی بھٹو کی 42ویں برسی منا رہی ہے جس میں ابھی تک اس نے پی ڈی ایم میں شامل کسی بھی سیاسی پارٹی کو دعوت نہیں دی ہے ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے ذوالفقار علی بھٹو کی 42ویں برسی کے موقع پر راولپنڈی کے جلسے میں ابھی تک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی دیگر جماعتوں کو مدعو نہیں کیا حالانکہ جماعت ابھی تک اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہے۔
اگر پیپلز پارٹی پی ڈی ایم جماعتوں کو مدعو نہیں کرتی تو یہ گزشتہ برس ستمبر میں اسلام آباد میں کثیر الجماعتی کانفرنس کے دوران 10 جماعتی اتحاد کی تشکیل کے بعد پہلا ایسا مرحلہ ہوگا۔
اس سے قبل پی پی پی نے اپنے متعدد پروگرامز میں پی ڈی ایم جماعتوں کو مدعو کیا تھا جس میں گزشتہ برس 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں بینظیر بھٹو کی ہونے والی 13ویں برسی بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ پی ڈی ایم قیادت نے کارساز حملے کی برسی کے موقع پر کراچی اور پارٹی کے یومِ تاسیس کے موقع پر گزشتہ برس 30 نومبر کو ملتان میں میں پیپلز پارٹی کے منعقدہ جلسہ عام میں بھی شرکت کی تھی۔
اس ضمن میں جب پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی پارٹی نے راولپنڈی میں 4 اپریل کے عوام اجتماع کی دعوت اب تک پی ڈی ایم جماعتوں کے قائدین کو نہیں دی۔
تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ امکان ہے کہ پارٹی قیادت پی ڈی ایم رہنماؤن کو اس تقریب میں مدعو کرے گی، جو کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اسمبلیوں سے استعفے جمع کروانے سے انکار کے بعد پہلی بڑی تقریب ہوگی۔
پیپلز پارٹی نے راولپنڈی کے جلسے کے بعد اپنی اسمبلیوں سے استعفے دینے سے متعلق اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کے لیے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا ہے جس کے بارے میں آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمٰن کو آگاہ کرچکے ہیں۔
تاہم پیپلز پارٹی کے ایک ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی حتمی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی اور یہ اجلاس 4 یا 5 اپریل کو ہوسکتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے پی ڈی ایم کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا تھا جب مشترکہ طور پر سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے چند ہی روز بعد اس کی قیادت نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے معاملے پر اختلافات کی بنا پر لانگ مارچ ملتوی کردیا تھا۔
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ اجلاس کا ایجنڈا 26 مارچ کے لانگ مارچ کے حوالے سے تھا اور یہ لانگ مارچ یہاں پر ہو تو اسمبلیوں سے استعفے بھی دیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کے ساتھ استعفوں کو وابستہ کرنے کے حوالے سے 9 جماعتیں اس کے حق میں جبکہ پی پی پی کو اس سوچ پر تحفظات تھے اور وقت مانگا ہے کہ ہم اپنی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کی طرف رجوع کرکے پی ڈی ایم کو آگاہ کریں گے۔
اس موقع پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ 26 مارچ کی ریلی استعفوں سے مشروط تھی تو چیئرمین بلاول اور میں نے پی ڈی ایم کی پوری قیادت سے گزارش کی کہ ہمیں آپ مہلت دیں کیونکہ سی ای سی کا پہلا فیصلہ استعفوں کے حق نہیں تھا، اگر آپ چاہتے ہیں ہمیں استعفے دینے چاہئیں تو ہمیں سی ای سی میں واپس جانے کے لیے وقت دیں تاکہ ان سے اجازت لے کر پھر آپ کے پاس آئیں گے۔
جس کے بعد 18 مارچ کو مولانا فضل الرحمٰن نے سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے علیحدہ علیحدہ بات کی تھی۔
ٹیلیفونک بات چیت کے دوران آصف زرداری نے پی ڈی ایم کی جانب سے لانگ مارچ کو استعفوں سے مشروط کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور گزشتہ برس کثیر الجماعتی کانفرنس میں طے پانے والے لائحہ عمل کی جانب توجہ دلائی تھی جس میں استعفوں کو آخری آپشن کہا گیا تھا۔