اسلام آباد:(سچ خبریں) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ٹیکس چھپا کر مبینہ طور پر مالی بے قاعدگیوں کی مرتکب ہونے والی نجی کمپنی کی معلومات فراہم کرنے والے پیغام رساں کی شناخت ظاہر کرنے پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی سرزنش کی۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایف بی آر کو حکم دیا کہ 60 روز میں رپورٹ جمع کرائیں اور وضاحت طلب کی ہے کہ پیغام رساں کی جانب سے مذکورہ کمپنی سے زیادہ سے زیادہ سیلز ٹیکس وصول کرنے کے لیے معلومات فراہم کیے جانے کے باجود بورڈ اس کے مکمل استعمال میں ناکام کیوں ہوا ہے اور اس کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا ہے۔
قومی محتسب کے فیصلے کے خلاف فریق بننے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ یہ پیغام رساں کے تصور اور قانون سازی کی خلاف ورزی ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ایف بی آر نے انتہائی سست رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پیغام رساں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک نجی کمپنی کی جانب سے ایف بی آر سے بڑے پیمانے پر سیلز ٹیکس چھپانے کی رپورٹ دی تھی اور اس کے نتیجے میں انہیں کمپنی کی جانب سے دھمکیاں بھی ملی تھیں۔
صدر مملکت نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ جائزے کے حکم پر نظرثانی کریں اور پیغام رساں کو سماعت کے لیے ایک موقع فراہم کریں۔
شکایت کنندہ محمد الیاس اس وقت ایم ناردرن ٹولنگز پرائیویٹ لمیٹڈ میں بطور اکاؤنٹنٹ کام کر رہے ہیں اور ایف بی آر کو رپورٹ دی تھی کہ کمپنی اپنے ملازمین کے نام پر بینک اکاؤنٹس بنا کر، غیراعلانیہ ذخیرے پر مشتمل ویئر ہاؤسز چھپانے، کم ٹیکس کی ادائیگی، ایک جیسے ناموں اور دوسری کمپنیوں کے طرز پر درآمدات میں انڈر انوائسنگ کرنے سمیت مختلف مالی بے قاعدگیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح قومی خزانے کو بڑا نقصان پہنچ رہا ہے ۔
ایف بی آر نے مذکورہ کمپنی کے خلاف کارروائی شروع کی تھی اور ایک کروڑ 52 لاکھ سے زائد رقم برآمد کرلی تھی تاہم جو رقم برآمد کرلی گئی تھی وہ شکایت کنندہ کی جانب سے فراہم کی گئیں معلومات سے انتہائی کم تھیں۔
کمپنی کے ملازم نے ایف بی آر کے چیئرمین کے پاس ٹیکس چھپانے کے حوالے سے شکایت درج کرادی تھی تاہم شنوائی نہ ہونے پر وہ قومی محتسب کے پاس معاملہ لے کر گئے۔
قومی محتسب کے پاس سماعت کے دوران ایف بی آر نے محتسب کی حدود سے متعلق اعتراض کیا اور اس حوالے سے ٹیکس نقصان کے تعین اور قانون کی تشریح، قواعد و ضوابط کے تحت قانونی فائدہ سے متعلق مسائل اٹھائے تھے۔
ایف بی آر نے کہا تھا کہ پیغام رساں نے 50 لاکھ روپے ٹیکس چھپانے کے حوالے سے تحریری بیان جمع کرایا تھا اور ان کی جانب سے فراہم کی گئیں تمام معلومات کی جانچ کی گئی اور اپیل کے حق کے ساتھ جائزے کا حکم دیا گیا اسی لیے ازسرنو شکایات کا اندراج غیرضروری ہے۔
دوسری جانب قومی محتسب نے ایف بی آر کا مؤقف مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ معلومات کا مکمل استعمال نہ کرنے کا معاملہ ہے جہاں مختلف حربوں سے ڈیوٹیز اور ٹیکس چھپایا گیا ہے۔
محتسب نے مزید کہا کہ شکایت گزار کا کمپنی کے ٹیکس فراڈ کے مؤقف میں وزن ہے اور اسی لیے یہ انصاف کا معاملہ ہے کہ انہیں ایف بی آر کے سامنے اپنی دلیل پیش کرنے کے لیے دوسرا موقع دیا جائے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایف بی آر نے حکم کی تعمیل کے بجائے قومی محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر مملکت کے سامنے پیش ہونے کی درخواست کی۔
صدر مملک نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قومی محتسب کا حکم ایف بی آر کو درخواست گزار کی جانب سے فراہم کی گئیں معلومات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے چھپایا گیا ٹیکس وصول کرنے کے لیے دوبارہ آڈٹ کی سماعت کرنے اور اس حوالے سے انہیں اپنے مؤقف کی وضاحت کے لیے دوسرا موقع دینے سے متعلق ہے۔