اسلام آباد(سچ خبریں) وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ پاکستان کے دوسرے ممالک سے تعلقات کا انحصار کسی تیسرے ملک سے تعلقات پر نہیں،پاکستان کسی ملک کا خوف سامنے رکھ کر اپنی سفارتکاری یا خارجہ پالیسی تشکیل نہیں دے گا۔
پاکستان پہلے دن سے ہی ڈرون حملوں کے خلاف تھا، خارجہ پالیسی فرد واحد نہیں ،ملک اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہے، بھارت کے ساتھ تجارتی یا سفارتی تعلقات میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، پاکستان بھارت سمیت تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے، خارجہ پالیسی کی بنیاد ملک اور عوام کا مفاد ہوتا ہے، دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کی بنیاد کسی تیسرے ملک سے تعلقات پر نہیں ہوتی۔
جمعرات کو قومی اسمبلی میں نور عالم خان اور فہمیدہ مرزا کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیرمملکت حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان کے دوسرے ممالک سے تعلقات کا انحصار کسی تیسرے ملک سے تعلقات پر نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے سابق وزیراعظم کی ملاقات سے واپسی پر ان کا استقبال اس طرح کیا گیا کہ جیسے وہ ورلڈ کپ جیت کر آئے ہوں، اس دورے کے بعد کشمیر میں آئینی حیثیت تبدیل کردی گئی، بھارتی کمیشن کی حد بندی کی رپورٹ پر اس وقت پاکستان نے بھارتی سفارتکار کو طلب کرکے احتجاج کیا اور مذمتی بیان جاری کیا۔
حنا ربانی کھر نے کہا کہ دنیا اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اٹھائی جانے والی آواز کو زیادہ سنتی ہے تو ہمیں یہی چینل اپنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملہ کے خلاف پاکستان روز اول سے تھا، خارجہ پالیسی کسی کی ضد، انا نہیں پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ بیرون ممالک میں روزگار کے لئے اپنے عوام کے لئے دروازے بند کرنے، مختلف ممالک سے تعلقات کی خرابی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہوتی ہے، گزشتہ دور حکومت میں یہ کیا گیا ۔
امریکی عہدیدار بلنکن نے کال کی تو یہ پاکستان کے حق میں ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان اور پاکستانیوں کے مفاد کے لئے خارجہ پالیسی کتنی سود مند ہوتی ہے یہی کامیاب خارجہ پالیسی ہے،انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کسی ملک کے خلاف نہ ہو، ہماری پالیسی اینٹی بھارت بھی نہیں ہونی چاہیے،جی ایس پی پلس سے ہماری برآمدات میں بہتری آئی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارت یا تعلقات میں تبدیلی کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کسی ملک کا خوف سامنے رکھ کر اپنی سفارتکاری یا خارجہ پالیسی تشکیل نہیں دے گا۔ گزشتہ حکومت نیاپنی سفارتکاری کو سیاست کے لئے استعمال کیا وہ جتنا مرضی عوام کو اشتعال دلائیں ہم نے اپنی خارجہ پالیسی قومی مفاد میں عوام کے مفاد میں مرتب کرنی ہے۔
قبل ازیں تحریک انصاف کے رکن نور عالم خان نے کہا کہ وزیر خارجہ بتائیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر کیا بات ہوئی۔ حکومت بتائے کہ اس نے دوسرے ممالک سے اچھے تعلقات کے لئے کیا منصوبہ بنایا ہے، بجلی بحران کا حل کیا ہے۔ امریکی حکام سے کیا بات ہوئی ہے، اس بارے میں آگاہ کریں۔ ملک میں لوڈشیڈنگ بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ حکومت نے اگر تیل نہیں خریدا تو یہ بتائیں کہ انہوں نے کیا اقدام اٹھایا۔
اشیا خوردونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے، اس میں کمی کے لئے کیا اقدامات اٹھائے گئے۔ سابق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ جمہوریت اور آئین کے لئے قائد حزب اختلاف کا ہونا ضروری ہے ، حقیقی اپوزیشن جی ڈی اے ہے، ہم سیاسی کچھائو دیکھ رہے تھے۔ ملک میں معاشی بحران دیکھ رہے تھے۔ بلاول بھٹو کو شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ بننے پر مبارکباد دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرارداد اچھا اقدام تھا تاہم اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ ہم نے مخالفت برائے مخالفت نہیں کرنی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں جو ہو رہا ہے اس کے لئے پارلیمان اور پارلیمان کے باہر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے، یہ صرف پالیسی بیان نہیں ہونا چاہیے، اقوام متحدہ میں بھی یہ حکمت عملی اختیار کی جائے۔ سندھ میں بھی ایوان کے اندر اور باہر جماعتوں کے ساتھ مل کر ضابطہ اخلاق بنایا جائے۔ انتخابی اصلاحات میں تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے۔