کراچی: (سچ خبریں) حکومت کے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کو 100 فیصد تھر کے مقامی کوئلے پر منتقل کرنے میں پہلی بڑی رکاوٹ سامنے آگئی، ایشیائی ترقیاتی بینک نے جامشورو پاور پلانٹ یونٹ ون پر ایسی منتقلی کو سپورٹ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس منصوبے کے لیے سب سے زیادہ قرض دے رکھا ہے، لہٰذا پلانٹ میں کسی بھی قسم کی اہم اسٹرکچرل تبدیلی کے لیے اس کی رضامندی لازم ہے۔
منصوبے سے منسلک ایشیائی ترقیاتی بینک کے عہدیدار نے ڈان کو تحریری مؤقف میں بتایا کہ ہم جامشورو پاور پلانٹ کو 100 فیصد مقامی کوئلے پر منتقل کرنے کو سپورٹ نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اے ڈی بی کا قرض اور منصوبے کے پاکستانی حکومت کے ساتھ معاہدے کے تحت پلانٹ کو 80 فیصد درآمدی اور 20 فیصد مقامی کوئلے پر چلانا شامل ہے۔
وزارت توانائی کے عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے منصوبے کو تھر کوئلے پر منتقل کرنے کی مخالفت کرنے کی تصدیق کی، انہوں نے بتایا کہ بینک نے باضابطہ طور پر کچھ عرصہ قبل خط کے ذریعے اس منصوبے کی مخالفت کا بتا دیا ہے، تاہم انہوں نے خط کا متن شیئر کرنے سے انکار کر دیا۔
1320 میگاواٹ کا جامشورو کول پاور پلانٹ 660 میگاواٹ کے 2 یونٹس پر مشتمل ہے، یونٹ ون کی کل لاگت ایک ارب 50 کروڑ ڈالر ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامک ڈیولپمنٹ بینک نے بالترتیب 90 کروڑ ڈالر اور 22 کروڑ ڈالر فراہم کیے ہیں، حکومت نے منصوبے میں 38 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
اس منصوبے کا پہلا یونٹ تقریباً مکمل ہے تاہم اب تک اسے چلایا نہیں جا رہا، اس کی کمرشل آپریشن کی تاریخ پر متعدد بار نظر ثانی کی گئی ہے جس کی بنیادی وجہ زر مبادلہ کی قلت ہے، جو کوئلے کو درآمد کرنے کے لیے درکار ہے۔
اس کی دوسری وجہ تھرکول فیلڈ سے عمر کورٹ میں چھوڑ تک 105 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک کی تعمیر میں تاخیر ہے، جہاں یہ لائن ملکی ریلوے لائن سے منسلک ہو جائے گی تاکہ کوئلے کو تھر سے لایا جاسکے، جو پروجیکٹ سائٹ سے تقریباً 270 کلومیٹر دور ہے، اس ریلوے لائن کی تعمیر جامشور پاور پلانٹ اور دیگر حصوں میں کوئلے کی ترسیل کے لیے بنیادی شرط ہے۔