?️
اسلام آباد: (سچ خبریں) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم کی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہیں، امریکی صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ 20 نکات ہمارے نہیں، فلوٹیلا میں شامل پاکستانیوں کی بحفاظت واپسی کے لیے کوشاں ہیں، سینیٹر مشتاق کی رہائی کیلئے یورپی ممالک سے مدد لے لی، غزہ میں امن بیانات سے نہیں عملی اقدامات سے ہی ممکن ہوگا۔
قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں قوم کی بھرپور نمائندگی کی، کشمیر کے ساتھ فلسطین کا مسئلہ اٹھایا، عالمی معاملات پر گفتگو کی اور موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ اٹھایا، وہاں اسرائیل کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی،۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ جنرل اسمبلی جانے سے پہلے ہماری بات ہوئی کہ اقوام متحدہ کا اجلاس تو ہر سال ہوتا ہے، اس بار 80 واں ہورہا ہے لیکن اقوام متحدہ غزہ میں خونریزی رکوانے میں ناکام ہوچکا ہے، یورپی یونین ناکام ہوچکی ہے ، عرب ممالک ناکام ہوچکے ہیں، ہماری کوشش تھی کہ کچھ ممالک کے ساتھ ملکر امریکا، جو آخری امید ہے اسے انگیج کیا جائے اور معصوم جانوں کی روز ہونے والی خونریزی، بھوک سے اموات اور بے دخلی اور مغربی کنارے کو ہڑپ کرنے کے منصوبے کو روکا جائے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس صورتحال میں ایک منصوبہ تھا کہ کچھ ممالک مل کر امریکی صدر سے رابطہ کریں اور انہیں اس میں شامل کریں کہ اس وقت سب سے زیادہ تکلیف دہ مسئلہ ہے، جہاں 64 ہزار افراد شہید اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، اقوام متحدہ میں درجنوں قرار دادیں منظور ہوچکی ہیں، او آئی سی کی قرار دادیں منظور ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں کہا کہ غزہ انسانوں کے قبرستان کے ساتھ ساتھ عالمی ضمیر کا قبرستان بھی بن چکا ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ 5 عرب ممالک، پاکستان، ترکیہ اور انڈونیشیا کے صدور اور وزرائے اعظم نے اپنے وزرائے خارجہ کے ہمراہ امریکی صدر سے ملاقات کی ۔
اسحٰق ڈار نے انکشاف کیا کہ صدر ٹرمپ سے ہونے والی مسلم ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات سے ایک اور قبل بھی ایک ملاقات ہوگی، یہ بات ذرائع ابلاغ میں نہیں آئی کیونکہ خدشہ تھا کہ اس معاملے کو خراب کرنے والے میدان میں کود پڑیں گے، ہم نے دیکھا ہے کہ نہ اقوام متحدہ کی قرارداد غزہ میں خونریزی روک سکیں، نہ سلامتی کونسل روک سکی نہ عرب ممالک خود روک سکے، وہاں تقاریر بہت ہوئی ہیں، اس ایوان نے بھی بہت سنجیدگی سے ایک قرارداد منظور کی مگر نتیجہ کیا تھا وہاں خون بہہ رہا تھا۔
اسحٰق ڈار نے بتایا کہ صدر ٹرمپ سے ملاقات سے ایک روز قبل 8 ممالک کے وزرائے خارجہ کی صدر ٹرمپ کے ساتھ اقوام متحدہ کے ہیڈاکوارٹرز کے اندر غیر رسمی ملاقات ہوئی ، جس میں ہم سب نے بات کی کہ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے وہ شرمناک ہے، اگر ہم اسے روک نہیں سکتے تو پھر جنرل اسمبلی کا کیا فائدہ؟
نائب وزیراعظم نے کہا کہ ’صدر ٹرمپ نے ہماری باتوں پر مثبت ردعمل دیا اور کہا کہ پھر اس طرح کریں کہ آپ 8 وزرائے خارجہ میری ٹیم کے ساتھ بیٹھ جائیں اور کوئی قابل عمل حل پیش کریں، میں پیر(گزشتہ) کو نیتن یاہو سے ہونے والی ملاقات میں نیتن یاہو اسے روکنے کی کوشش کرتا ہوں، اس ملاقات کی یہ روح تھی، اس میں کسی کا ذاتی ایجنڈا نہیں تھا، اگر کچھ کرواسکتے تھے وہ تمام فورم کچھ کروالیتے جو 2 سال میں نہیں کرواسکے۔
اسحٰق ڈار نے مزیدکہا کہ اگلے دن دوبارہ ملاقات طے ہوئی، قطری سفارتخانے میں ملاقات ہوئی، جسے منظر عام پر نہیں لا گیا، کوئی تصویر نہیں جاری کی گئی، اس ملاقات میں صدر ٹرمپ کی ٹیم بھی آئی، جس سے کافی طویل ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہمیں 20 نکاتی پرپوزل دیا، جس پر ہم نے انہیں کہا کہ ہم مشاورت کے بعد اگلے روز جواب دیں گے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اسی ڈرافٹ میں رہتے ہوئے اپنی چیزیں شامل کیں، جمعہ کو ہم 8 ممالک کا حتمی ڈرافٹ امریکا کو بھجوایا گیا جو ہفتے کو امریکی اتنظامیہ کو موصول ہوگیا۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ امریکا نے پیر کو 20 نکاتی منصوبے کا اعلان کیا، میں اس وقت لندن سے پاکستان آرہا تھا تو میری سعودی ہم منصب سے بات ہوئی، سعودی وزیرخارجہ نے بتایا کہ ہماری ہنگامی چیزیں مان لی گئی ہیں لیکن کچھ چیزوں پر ہمیں دوبارہ بات کرنا پڑے گی۔
اسحٰق ڈار نے بتایا کہ سعودی وزیر خارجہ نے ان سے کہا کہ ہم چیزوں کا انتخاب کرسکتے ہیں ایک یہ ہے کہ جو ہورہا ہے اسے ہوتے رہنے دیں، جتنے لوگ مر رہے ہیں انہیں مرنے دیں، جتنی خونریزی ہورہی ہے اسے ہونے دیں، مزید لوگوں کو بے دخل ہونے دیں یا پھر دوسرا حل یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے معاہدے کو فوری نافذ ہونے دیں اور اپنا ایک مشترکہ بیان جاری کریں، جسے منظر عام پر لایاجائے اور امریکا کو بھی ارسال کیا جائے۔
اسحٰق ڈار نے بتایا کہ میں نے سعودی وزیر خارجہ سے کہا کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے، وہ مشترکہ بیان مجھے پیر کی رات کو ملا، اس پر سعودی وزیر خارجہ سے رابطے میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے سعودی وزیر خارجہ مشترکہ بیان میں موجود اسرائیل کا نام بھی کٹوایا ہے کہ ہم اس کا نام بھی سننا نہیں چاہتے، ہماری سفری دستاویز کہتی ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے سفر کے لیے کارآمد ہے، اسرائیل کا لفظ ہمارا نو گو ایریا ہے، انہوں نے رات ایک بجے یہ بیان فائنل ہوا۔
اسحٰق ڈار نے ایوان میں مسلم ممالک کا مشترکہ بیان بھی پڑھ کر سنایا۔
5 عرب اور پاکستان سمیت 3 اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اردن، متحدہ عرب امارات، جمہوریہ انڈونیشیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان، جمہوریہ ترکیہ، مملکت سعودی عربیہ، ریاست قطر اور عرب جمہوریہ مصر کے وزرائے خارجہ صدر ٹرمپ کی قیادت اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ان کی سنجیدہ کوششوں کا خیرم مقدم کرتے ہیں اور امن کا راستہ تلاش کرنے کی ان کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔
بیان میں مزیدکہا گیا ہے کہ ہم خطے میں امن کے لیے امریکا کے ساتھ شراکت داری کو اہمیت دیتے ہیں، آٹھوں وزرائے خارجہغزہ میں جنگ کے خاتمے، غزہ کی تعمیر نو، فلسطینی عوام کی بے دخلی روکنے ، پائیدار امن کے قیام اور مغربی کنارے کو ضم کرنے کے اسرائیلی اقدام کو قبول نہ کرنے کے امریکی اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وزرائے خارجہ اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ مثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ تیار ہیں کہ وہ امریکا اور دیگر فریقین کے ساتھ اس معاہدے کو حتمی شکل دیں اور اس پر اس طرح عملدرآمد کو یقینی بنائیں جس کے ذریعے اس خطے میں لوگوں کو امن و سلامتی میسر آسکے۔
اسحٰق ڈار نے بتایا کہ بیان کے آخری حصے میں کہا گیا ہے کہ وزرائے خارجہ اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ ایک جامع منصوبے کے ذریعے غزہ میں جنگ کے خاتمے کی امریکی کوششوں کا ساتھ دیں گے، اس منصوبے میں میں غزہ میں امداد کی بلا روک ٹوک رسائی، فلسطینیوں کی بے دخلی روکنے، یرغمالیوں کی رہائی، تمام فریقین کی یقینی سلامتی کا لائحہ عمل، مکمل اسرائیلی انخلا، غزہ کی تعمیر نو اور ایسے راستے کا قیام جس کے ذریعے دو ریاستی حل کے ذریعے امن کا قیام ممکن ہوسکے۔
اس موقع پر اسحٰق ڈار نے تائید طلب نگاہوں سے ایوان کو دیکھتے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی ریاست پالیسی تو دو ریاستی حل ہی ہے، کسی ایک کی پالیسی نہ ہوتو الگ بات ہے ، پاکستان کی پالیسی تو یہی ہے۔
انہوں نے مزید بیان میں بتایا گیا ہے کہ مغربی کنارہ غزہ کے ساتھ فلسطینی ریاست کا حصہ ہوگا اور اسے اسرائیل کے ساتھ شامل نہیں کیا جائے گا، بین الاقوامی قانون کے مطابق خطے میں امن و استحکام کے قیام کی یہی کلید ہے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ یہ وہ مشترکہ بیان ہے جسے 29 ستمبر کی رات حتمی شکل دی گئی ہے، تمام ممالک کے وزرائے خارجہ کی ویب سائٹس پر یہ مشترکہ بیان موجود ہے اور جس میں کوما اور فل اسٹاپ کا بھی کوئی فرق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یا تو ہماری انفرادی طور پر اتنی استعداد ہونی چاہیے کہ ہم اس جنگ کو بند کرواسکیں تو ہمیں ہر قربانی دینی چاہیے لیکن اگر ہم نہیں کرسکتے تو یہی ایک راستہ تھا جہاں اقوام متحدہ ناکام ہوگئی، جہاں سلامتی کونسل ناکام ہوگئی، جہاں عرب ممالک اور اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی جو دوسرا بڑا کثیر الملکی اتحاد ہے، ناکام ہوگیا تو پھر کیا راستہ تھا؟ کیا ہم نے تماشا دیکھنا ہے، بیانات دینے ہیں، ٹاک شوز میں بیٹھ کر سیاست کرنی ہے یا کوئی عملی کام کرنا ہے، قرآن کیا کہتا ہے کہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانا اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، یہاں تو روز درجنوں لوگ شہید ہورہے ہیں۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ میں نے وزارت میں منگل کو پریس بریفنگ میں واضح طور پر اعلان کیا کہ ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ ہمارا نہیں ہے، یہ من و عن ہمارے نہیں ہیں، ہمارے مسودے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں، میرے پاس ریکارڈ موجود ہے۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف سفر میں تھے، انہوں نے ٹرمپ کے ٹوئٹ کے جواب میں ٹوئٹ کردی، کسی کو الہام تو نہں ہونا تھا کہ یہ 20 نکات وہ نہیں ہیں جو اسلامی ملکوں نے بھیجے ہیں، یہ حتمی نتیجہ ہے جس میں سیاست کی گنجائش نہیں ہے، ہمارے لیے بہت آسان تھا کہ ہم واک آؤٹ کرجاتے اور یہ کوشش نہ کرتے، یہ کوشش جنرل اسمبلی اجلاس کا حصہ نہیں تھی۔
نائب وزیراعظم نے کہا کہ غزہ جانے والے فلوٹیلا کی 45 میں سے تقریباً 22 کشتیوں کو پکڑا اور اس میں سوار لوگوں کو گرفتارکیا ہے، جن غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان بھی شامل ہیں۔
اسحٰق ڈار نے بتایا کہ ہم نے ایک بااثر یورپی ملک کو اس معاملے میں شامل کیا ہے اور ان سے کہا ہے وہ اسرائیل سے رابطہ کرکے ہمارے سینیٹر کو فوری طور پر رہا کروائیں، ہمیں بتایا گیا ہے کہ جمعے کی رات گرفتار کیے گئے افراد کے حوالے سے کوئی سرگرمی نہیں ہوئی ہے، ہم سوئے ہوئے نہیں ہیں، پہلی 25 کشتیوں میں صرف ایک مشتاق صاحب ہیں، باقی لوگ پیچھے ہیں، ہم پرسوں رات سے یورپی ملک سے رابطے میں ہیں اور جتنا جلدی ہوسکے گا، اپنے لوگوں کو رہا کروائیں گے۔
مریم نواز کا معافی مانگنے سے انکار، پیپلزپارٹی کا واک آؤٹ
قبل ازیں، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے معافی مانگنے سے انکار پر پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی اجلاس سے واک آؤٹ کردیا، پیپلزپارٹی کے ارکان نے موقف اپنایا کہ حالات جوں کے توں ہیں، ایوان کی کارروائی کا حصہ نہیں بن سکتے، بعد ازاں حکومتی ٹیم کے منانے پر پیپلزپارٹی کے ارکان ایوان میں واپس آگئے۔
اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ مذکرات ہی مسائل کا واحد حل ہیں، تمام معاملات افہام وتفہیم سے حل ہوسکتے ہیں، ایک دوسرے پر الزام تراشی کسی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں۔
دریں اثنا، اسلام آباد پریس کلب پرپولیس کے دھاوے کے خلاف صحافیوں نے بھی پریس گیلری میں احتجاج کیا۔
مشہور خبریں۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، متعدد شہید اور زخمی
?️ 24 نومبر 2024سچ خبریں:اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں
نومبر
نیو اورلینز واقعے کا مشتبہ شخص کون تھا ؟
?️ 2 جنوری 2025سچ خبریں: روئٹرز نے بدھ کی رات لکھا کہ NOLA.com نے قانون
جنوری
سعودی عرب کا یمن پر توپخانہ حملہ
?️ 3 نومبر 2024سچ خبریں:یمنی میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے یمن کے سرحدی علاقے
نومبر
صیہونی حکومت کے صدر کا جمہوریہ آذربائیجان کا دورہ منسوخ
?️ 17 نومبر 2024سچ خبریں: صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اس حکومت کے صدر
نومبر
بلوچستان: سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کا حملہ، 2 جوان شہید
?️ 1 جون 2023بلوچستان: (سچ خبریں) بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاک-ایران بارڈر کے قریب
جون
دو امریکی اہلکار ایران اور تیل پر بات چیت کے لیے سعودی عرب گئے ہیں: وائٹ ہاؤس
?️ 27 مئی 2022سچ خبریں: جمعرات کی شام ایک نیوز کانفرنس میں وائٹ ہاؤس نے
مئی
امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری شروع
?️ 22 جنوری 2025سچ خبریں: ٹرمپ انتظامیہ کے بارڈر سیکیورٹی کے نئے سربراہ تھامس ہومن نے
جنوری
صیہونی حکومت کس طرح بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہے؟
?️ 24 دسمبر 2023سچ خبریں:جعلی صیہونی حکومت 20ویں صدی کے آغاز میں انگلستان کی قیادت
دسمبر