لاہور: (سچ خبریں) سیاسی منظر نامے اور ملک میں جاری بحران کے پیش نظر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سیاسی طور پر متحرک ہونے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا بنیادی مقصد ’جیل میں قید سابق وزیر اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی مقبولیت کا مقابلہ کرنا ہے‘۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک وزیر نےمیڈیا کو بتایا کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نواز شریف ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کریں گے تاکہ جماعت کو دوبارہ فعال کیا جا سکے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف جو زیادہ تر وقت مری میں گزار رہے ہیں، پہلے بلوچستان جائیں گے، پھر سندھ اور اس کے بعد خیبر پختونخوا کا دورہ کریں گے، اس حوالے سے وہ پنجاب میں بھی ملاقاتیں کریں گے۔
وزیر کے مطابق گزشتہ ماہ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت کے اجلاس میں جماعت کو نچلی سطح پر دوبارہ منظم اور فعال کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا، اس کے پیش نظر نواز شریف خود اس عمل کی نگرانی کریں گے اور خالی پارٹی عہدوں پر وفادار کارکنان اور رہنماؤں کو اہمیت دیں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں صدر مسلم لیگ (ن) ملک بھر میں ریلیاں نکالیں گے۔
مسلم لیگ (ن) اور میڈیا میں یہ تاثر پایا جاتا رہا ہے کہ نواز شریف کا کردار اب جماعت میں صرف رسمی سطح تک محدود ہوگیا ہے، خاص کر جب سے مرکز میں شہباز شریف کی حکومت بنی ہے، بعض سینئر پارٹی رہنماؤں، بشمول وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے مبینہ طور پر پارٹی صدر سے جماعت کے امور میں دوبارہ متحرک ہونے کی درخواست کی ہے۔
پارٹی رہنما نے ڈان کو بتایا کہ اس کے علاوہ موجودہ سیاسی صورتحال بھی نواز شریف کو سیاسی طور پر متحرک ہونے کا تقاضہ کرتی ہے تاکہ جیل میں قید عمران خان کی مقبولیت کا مقابلہ کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں سیاستدانوں کے لیے ’محدود گنجائش‘ پر نواز شریف فکرمند ہیں، وہ غیر جمہوری قوتوں کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
حال ہی میں صدر مسلم لیگ (ن) نے بھائی شہباز شریف کی مرکزی حکومت اور بیٹی مریم نواز کی حکومت پنجاب کو ہدیت دی ہے کہ اہم معاملات پر فیصلہ سازی میں جماعت کو شامل کیا جائے۔
یکم ستمبر کو قبل مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے ڈان کو بتایا جماعت کے اجلاس میں نواز شریف نے حکومتی امور میں پارٹی کے کردار کو بڑھانے کے لیے تجاویز طلب کیں، سابق وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ حکومت اہم انتظامی فیصلے جماعت سے مشاورت کے بعد کرے۔
سابق وزیر داخلہ نے بیوروکریسی کے حوالے سے بتایا تھا کہ’یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت کی فیصلہ سازی میں بیوروکریسی کا عمل دخل زیادہ ہے، جسے سیاسی عمل دخل سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے’۔