اسلام آباد (سچ خبریں) اسلام آباد میں چینی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ چین میں ایغور کے ساتھ ہونے برتاؤ پر مغرب کی جانب سے چین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ہم نے اپنے سفیر معین الحق کو وہاں بھیجا، انہوں نے معلومات حاصل کی تو پتا چلا کہ زمینی حقائق اس سے مختلف ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغرب، ایغور کے حوالے سے تو بات کرتا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے بات نہیں کرتا، کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی جارہی ہے، جہاں 90 لاکھ لوگوں کو بھارت نے کھلی جیل کی طرح قیدی بنایا ہوا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان 40 سال سے جنگ کا شکار تھا لیکن اب جب یہاں سے بین الاقوامی افواج کا انخلا ہوچکا ہے تو عالمی برادری کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ چاہے طالبان حکومت آپ کو پسند ہے یا نہیں لیکن 4 کروڑ افغانیوں کے لیے ہمیں ان کی مدد کرنی پڑے گی، ورنہ افغانستان دوبارہ جنگ کے دہانے پر آجائے گا۔انہوں نے چینی صحافیوں کو بتایا کہ وقت کے ساتھ پاک ۔ چین تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں، چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا اور ہم پڑوسی بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب قراقرم ہائی وے تعمیر کیا گیا تو میں اسکول میں تھا، وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلقات گہرے ہوئے اور اب مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ دورہ چین پر پہلا اولمپکس دیکھیں گے، چین کے لوگ کرکٹ نہیں کھیلتے لیکن بطور کھلاڑی چین میں اولمپکس دیکھنا میرے لیے بہت دلچسپ ہوگا۔
وزیر اعظم نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد حالات سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ عالمی وبا کے باعث تمام شعبوں کے ساتھ کھیل بھی متاثر ہوئے ہیں۔
چین میں کھیلوں کی سرگرمیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ چین میں جہاں ایک طرف معیشت کی ترقی ہوئی ہے وہیں گزشتہ ایک دو سالوں میں ہم نے اس کی کھیلوں میں موجودگی بھی دیکھی ہے، اس سے قبل چین کھیلوں میں کبھی اتنا آگے نہیں تھا اور یہ قابل تعریف ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پیش رفت سے واضح ہوتا ہے کہ چین میں کھیلوں اور فٹنس کی طرف بھی توجہ مبذول کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں اسکیئنگ کے لیے بہترین مقامات موجود ہیں، ہماری کوشش ہے کہ ہم گلگت بلتستان میں اسکیئنگ پر توجہ دیں، چین میں سرمائی کھیلوں کو زیادہ توجہ دی جاتی ہے، گلگت بلتستان میں اسکیئنگ کے مواقع سے چین سے تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔
جمہوری منصوبہ بندی سے متعلق چینی صحافی کے سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ ساری دنیا نے تسلیم کیا ہے کہ چین نے 35 سے 40 سال میں اپنے ملک کو غربت سے نکالا ہے، یہ انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور یہی اقدام چین کے حوالے سے ساری دنیا کو متاثر کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا اہم مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے، جب میں چین گیا تو میں نے غربت ختم کرنے کا طریقہ جاننے کی کوشش کی اور یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستان میں چین کے ترقیاتی ماڈل کی تقلید کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے چین نے ترقی میں وسیع حصہ شامل کیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ چین نے ایسی ترقی کی کہ اس کے ساتھ تمام آبادی کو بھی ترقی ملی، وہاں باقی دنیا کی طرح نہیں ہوا جس میں امیر امیر تر ہوتے ہیں اور غریب غریب تر ہوتے جاتے ہیں، اور غریبوں اور امیروں کے درمیان خلا بڑھتا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کے دوران بھی غریب مزید غریب ہوئے اور امیر مزید امیر تر ہوئے تو چین ان تمام ممالک کے لیے رول ماڈل ہے جو اپنے لوگوں کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔
سی پیک اور چینی تعاون کے حوالے سے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ دراصل سی پیک کے پہلے مرحلے میں روابط بڑھانے اور توانائی کی پیداوار پر توجہ دی گئی، اب سی پیک دوسرے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے جس کے تحت صنعتوں کو منتقل کرتے ہوئے زونز بنائے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم خاص طور پر زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافے کے لیے مدد چاہتے ہیں، کیونکہ چین میں زرعی پیداوار پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے، چین میں کپاس کی نئی اقسام تیار کی گئی ہیں اور ہمارے پاس بے شمار اراضی موجود ہے جہاں کپاس اگائی جاتی ہے، اس لیے زرعی پیداوار میں ہمیں چین کی مدد درکار ہے۔
اس حوالے سے وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی ہمیں چین کی معاونت کی ضرورت ہے، ٹیکنالوجی کا انقلاب دنیا کا مستقبل ہے اور اس تناظر میں چین نے بہت ترقی کی ہے، اس لیے اس شعبے میں ہم چین کی مدد چاہتے ہیں۔
پاک ۔ چین اقتصادی تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ چین نے اپنی معیشت کو ترقی دیتے ہوئے غربت کو ختم کیا، جب ان کی دولت میں اضافہ ہوا تو انہوں نے اسے نچلے درجے تک منتقل کیا، ہماری بھی یہی کوشش ہے کہ ہم اپنی معیشت کو مضبوط کرنے پر زور دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم سلامتی پر توجہ نہیں دے رہے لیکن ہماری خاص توجہ معیشت پر ہے تاکہ ہماری دولت میں اضافہ ہو اور ہم لوگوں کو غربت سے نکال سکیں۔