اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عمران نیازی کے تحفظ کے لیے عدلیہ آہنی دیوار بن گئی ہے اور یہ اور کچھ نہیں بلکہ عمران نیازی اور اس کے حواریوں کو دیا گیا این آر او ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاشی حالات سے نمٹنے کے لیے کابینہ پوری کوشش کررہی ہے، پچھلے سال سیلاب کی تباہ کاریاں اور عالمی کساد بازاری کی وجہ سے مہنگائی کے طوفان اور پچھلی حکومت کی جانب سے توڑے گئے آئی ایم ایف معاہدے کو پورا کرنے کے لیے جو کاوشیں کی جا رہی ہیں اس بارے میں وزیر خزانہ بریفنگ دیں گے۔
ان کا کہنا تھاکہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے لیے جو گھناؤنا کردار ادا کیا ہے، وہ آج پاکستان کے لیے بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے، آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب ہماری حکومت آئینی طریقے سے منتخب ہوئی تو فی الفور عمران نیازی نے یہ کہا کہ یہ حکومت امریکا نے سازش کر کے بنوائیء ہے اور اس سلسلے میں وہ اور ان کے حواری لگاتار باور کرانے کے لیے بے شرمی سے جھوٹ بولتے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی ایک سے زائد میٹنگز ہوئیں اور اس میں باقاعدہ بحث کے بعد اعلامیہ جاری ہوا کہ کوئی سازش نہیں اور اس طرح سے ہم امریکا سے اپنے تعلقات خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے بطور وزیر اعظم اوروزیر خارجہ نے اپنے تئیں اس نقصان پر قابو پانے کی کوشش کی اور امریکا کے سفیر اور وفود سے ہم ملے، وزیر خارجہ امریکا گئے اور بھرپور کوشش کی کہ یہ جو نقصان پہنچانے کی سازش کی ہے، اس کو کنٹرول کیا جائے اور پھر ایک دن آیا کہ عمران خان گویا ہوئے کہ امریکا نے کوئی سازش نہیں کی، کیا یہ کوئی بچوں کا کھیل ہے کہ آپ عالمی سفارتکاری میں کسی ایسے ملک کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کے لیے آخری حد تک لے جائیں اور پھر رات راتوں آپ کو الہام ہوا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ پھر آئی ایم ایف کے ساتھ جو ہماری گفتگو چل رہی تھی، اس زمانے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومتوں میں ان کے وزرائے خزانہ کو عمران خان کی ہدایات پہنچائی گئی کہ آپ انکار کردیں، اس کا مقصد یہ تھا کہ آئی ایم ایف کی ڈیل ختم ہو جائے اور پاکستان خدانخواستہ دیوالیہ ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح عمران نیازی نے ایک سے زائد مرتبہ کہا کہ پاکستان کے حالات سری لنکا جیسے ہونے جا رہے ہیں،، یعنی وہ بددعائیں کررہے تھے کہ پاکستان حقیقتاً ڈیفالٹ کر جائے اور ہم مالی بحران میں مبتلا ہو جائیں، یہ گزشتہ سال کی ایک تصویر ہے جو آپ کے سامنے ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب سے وہ وزیر اعظم بنوایا گیا اور جن لوگوں نے چوری شدہ الیکشن کے ذریعے ان کو وزیراعظم بنایا، وہ ساری کہانی پوری قوم کے سامنے ہے، یہ منصوبہ 2018 سے پہلے سے شروع ہو چکا تھا اور کس طریقے سے عمران نیازی کو اس منصوبے کے تحت پوری طرح گائیڈ کیا جا رہا تھا۔
ان کا کہنا تھاکہ انہوں نے دن رات جو چور ڈاکو کی گردان کی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری قوم تقسیم ہو گئی بلکہ تقسیم در تقسیم ہو گئی اور یہ زہر آج ہر جگہ پہنچ چکا ہے، انہوں نے اپنی ذاتی انتقام کی آگ کو بجھانے کے لیے اپوزیشن کے رہنماؤں کو جیلوں میں بھجوایا، کیا اس وقت کیس عدالت نے اس کا نوٹس لیا، میں نہیں کہتا کہ سوموٹو لینا چاہیے تھا لیکن چونکہ عدلیہ کو سوموٹو نوٹس لینے کی عادت پڑ گئی ہے تو کیا اس وقت سوموٹو لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کسی نے کوئی ایکشن لیا مگر آج نیب نے جو کیسز بنائے ہیں ان کی اپنی آزاد اتھارٹی ہے اور آج اگر نیب نے آپ پر کرپشن کے درست کیسز بنائے ہیں تو عمران نیازی کو پروٹیکٹ کرنے کیلئے عدلیہ آہنی دیوار بن گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 16دسمبر 1971 سقوط ڈھاکا کے بعد 9مئی کا دن پاکستان کی تاریخ میں المناک ترین دن تھا، جب ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تو لوگوں نے احتجاج کیا لیکن کسی نے فوجی تنصیبات پر کسی نے دیکھا تک نہیں حالانکہ یہ سب جانتے تھے کہ وہ عدالتی قتل ہے، جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو فوراً انگلیاں اٹھیں، سوالیہ نشان اٹھے کہ کس طرح اس جگہ کو دھا دیا گیا جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کا خون پڑا ہوا تھا، بھرپور احتجاج ہوا، اس وقت ایک فوجی آمر تھا لیکن کسی نے فوجی تنصیب کی طرف رخ نہیں کیا اور وقت ضائع کیے بغیر آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور اس طرح قائد کا بچا ہوا پاکستان بچ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کو جس جھوٹے مقدمے میں سزا سنائی گئی، 100 دن روز میاں نوز شریف اور ان کی بیٹی ٹرائل کورٹ میں حاضر ہوتی تھیں اور پاناما کے بجائے اقامہ میں سزا دے دی، جب وہ اپنی بیٹی کے ساتھ اڈیالہ جیل میں تھے، تو جس دن میری بھابھی کا انتقال ہوا تو آدھے ہونے گھنٹے تک انہیں انتقال کی اطلاع نہیں دی گئی، جب میری والدہ اللہ کو پیاری ہو گئیں تو میں جیل میں تھا، نواز شریف لندن میں زیر علاج تھے مگر کیا کسی عدالت نے مجھے کہا کہ جا کر اپنی والدہ کی تدفین کر آؤ لیکن کل یہاں چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ عمران خان آپ سے مل کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔
وزیراعظم نے کہاکہ عمران خان کے خلاف 60ارب روپے کی کرپشن کا معاملہ ہے، سابقہ کابینی کے سیکریٹری نے بتایا تھا کہ وہ بند لفافہ تھا اور اس کو کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، شہزاد اکبر نے اٹھ کر کہا کہ یہ بڑے خفیہ کاغذات ہیں، ان کو ہم کھول نہیں سکتے اور رازداری کو برقرار رکھنا ہے تو اسے منظوری دے دیں، اس میں کونسے کاغذات تھے، کیا خدانخواستہ وہ کشمیر بیچنے کا معاہدہ تھا، پاکستان کی حساس تنصیبات کسی کو دینے کا معاملہ تھا، وہ کیا معاملہ تھا جس کو کابینہ نے بن دیکھے فیصلہ دے دیا، کیا کسی نے اس کا سوموٹو نوٹس لیا، یہ وہ تضادات ہیں جس نے پاکستان کو آج اس دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کاش جب نواز شریف کو بھی بلا کر کہتے تھے کہ بڑا اچھا لگا، کاش فریال تالپور کو بھی بلا کر کہتے کہ بڑی زیادتی ہے کہ آپ کو ہسپتال سے جیل لے جا رہے ہیں، مریم نواز کو بلا کر کہتے کہ آپ سے مل کر اچھا لگا، یہ وہ دوہرے معیار ہیں جس نے انصاف کا جنازہ نکال دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنی ساکھ کو داؤ پر لگا کر کہوں گا کہ حساس تنصیبات پر منصوبہ بندی کے تحت حملے کیے گئے اور منصوبہ ساز عمران نیازی تھا، انہوں نے حملے کر کے ہر چیز توڑ دی، شہیدوں اور غازیوں کی بے حرمتی کی گئی، اس سے بڑی دہشت گردی اور ملک دشمنی کیا ہو، میں اس ملک کا نام نہیں لوں گا لیکن اس سے زیادہ کون خوش ہو گا کہ انہوں نے وہ سب کردیا جو وہ ملک 75سال میں نہیں کر سکا۔
شہباز شریف نے کہا کہ آج صورتحال بہت خطرناک اور دلخراش ہے اور ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، کل جس طرح سپریم کورٹ نے جس طرح اس خائن کا تحفظ کیا تو پاکستان میں جتنے چور اور ڈاکو ہیں، ان سب کو چھوڑ دیں ، انہیں جیلوں سے نکال دیں اور اس کے نتائج ہماری نسلیں بھگتیں گی، یہ اور کچھ نہیں بلکہ عمران نیازی اور اس کے حواریوں کو دیا گیا این آر او ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ملک میں آئین و قانون کی عملداری ہو گی، میں اور یہ کابینہ آئین پر عمل کرنے کے پابند ہیں اور اس کے جو بھی نتائج ہوں گے، ہم اس کا سامنا کریں گے۔