اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے نئی تشکیل کردہ ججز کمیٹی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرڈیننس جاری ہونے کے چند گھنٹوں میں وجہ بتائے بغیر نئی کمیٹی کیسے قائم ہوئی، انہوں نے کمیٹی کا حصہ بننے سے معذرت کرلی اور وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر اجلاس میں شریک بھی نہیں ہوئے۔
میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس ہوا، جسٹس منصور علی شاہ ججز کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، اجلاس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان نے شرکت کی۔
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو خط لکھ کر واضح کیا کہ وہ فل کورٹ کی جانب سے آرڈیننس کے جائزے یا سابقہ کمیٹی کی بحالی تک اجلاس میں نہیں بیٹھ سکتے۔
خط میں کہا گیا کہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ قانون بنانے اور سپریم کورٹ اپنے رولز بنانے میں خود مختار ہے، آرڈیننس کے اجرا کے باوجود پہلے سے قائم کمیٹی کام جاری رکھ سکتی تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرڈیننس کے اجرا کے چند گھنٹوں میں وجوہات بتائے بغیر نئی کمیٹی کی تشکیل کیسے ہوئی، چیف جسٹس نے دوسرے اور تیسرے نمبر کے سینئر ترین جج کو کمیٹی کیلئے کیوں نہیں چنا۔
خط میں سوال کیا ’چیف جسٹس نے چوتھے نمبر کے سینئر ترین جج کو ہی کمیٹی کا حصہ کیوں بنانا چاہا، کیا چیف جسٹس چوتھے نمبر کے جج کو کمیٹی کا رکن بنانے کی وجوہات بتائیں گے؟
جسٹس منصور کے خط کے مطابق آرڈیننس آئین و جمہوری اقدار کے برخلاف ہے، اس سے سپریم کورٹ میں ون مین شو قائم ہوا جب کہ آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 191 اور سپریم کورٹ کے فل کورٹ فیصلہ کے خلاف ہے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کی بجائے آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی کوئی وجوہات نہیں دی گئیں، موجودہ آئینی بحران میں آرڈیننس کے ذریعے نئی کمیٹی کی تشکیل کی کوئی ضرورت درپیش نہیں تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں مطالبہ کیا کہ آرڈیننس کی آئینی حیثیت کے تعین تک پرانی ججز کمیٹی کام جاری رکھے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 پر عملدرآمد کرتے ہوئے جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین خان کو 3 رکنی ججز کمیٹی میں شامل کرلیا گیا۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے جاری آفس آرڈر کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سینیارٹی کے اعتبار سے پانچویں نمبر کے جسٹس امین الدین خان کو 3 رکنی ججز کمیٹی کے لیے نامزد کیا ہے۔
واضح رہے کہ 20 ستمبر کو صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط بعد سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 نافذ ہو گیا ہے۔
قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 منظور کیا تھا۔
اطلاعات ونشریات کے وزیر عطا اﷲ تارڑ نے کہا تھا کہ مفاد عامہ اور عدالتی عمل کی شفافیت کے فروغ کے لیے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈنینس 2024 نافذ کردیا گیا۔
ٹی وی پر نشر گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت کسی مقدمے میں عدالت عظمی کی جانب سے سنائے گئے فیصلے پراپیل کا حق بھی دیا گیا ہے۔
آرڈیننس کے مطابق چیف جسٹس آٖف پاکستان، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کے نامزد جج پر مشتمل کمیٹی کیس مقرر کرے گی، اس سے قبل چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں کا تین رکنی بینچ مقدمات مقرر کرتا تھا۔