کوئٹہ (سچ خبریں) بلوچستان میں حکمران جماعت میں اندرونی اختلافات زور پکڑنے لگ گئے ہیں جس کے پیش نظر ایک اور استعفیٰ تیار ہو گیا ہے، مشیرفشریزاکبرآسکانی نے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔وزیر اعلی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ انہوں نے وعدوں پر عمل نہیں کیا۔
تفصیلات کے مطابق حکمران جماعت کےاسپیکرعبدالقدوس بزنجو بھی وزیراعلیٰ سے نالاں ہیں۔ وزیرتعلیم بلوچستان سرداریارمحمدرند بھی استعفیٰ دے چکے ہیں ، اس کے علاوہ بی اے پی کے ہی صالح بھوتانی بھی قلمدان واپس لینے پراستعفیٰ دے چکے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ مشیرفشریزاکبرآسکانی نے بھی مستعفی ہونےکا فیصلہ کیا۔ اکبرآسکانی نے بھی وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ کی جانب سےوعدوں پرعمل نہیں ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کے درمیان سرد مہری تو پچھلے دو سالوں سے ہے، جو اس وقت پیدا ہوئی جب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے آواران میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی جانچ پڑتال کے لیے وزیر اعلیٰ کی معائنہ ٹیم کو بھجوایا۔
اسپیکر صوبائی اسمبلی قدوس بزنجو نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ تین سال سے وزیراعلیٰ میرے حلقے میں مسلسل مداخلت کر رہے ہیں، میں پارٹی کے مفاد میں خاموش رہا لیکن اسے میری مجبوری سمجھا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کے رویے کی وجہ سے پارٹی محدود ہو گئی ہے، اگر وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لائے تو ہم خاموش نہیں رہیں گے۔
اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے کہا کہ تین سال قبل حکومت گر ا کر بلوچستان عوامی پارٹی اس لیے بنائی تھی کہ صوبے کے لیے کام کریں اور عوام کی محرومیاں دور کریں، ہم نے مل کر وزیراعلیٰ جام کمال خان کو اس لیے پارٹی صدر بنایا تھا کہ وہ چیزوں کو بہتر بنائیں گے لیکن پارٹی کو اندورنی طور پر نقصانات بہت زیادہ ہورہے ہیں۔
قدوس بزنجو کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بجائے اس کے اپنے اندر تبدیلی لاتے انہوں نے مجھے اپنا مخالف تصور کیا، میں ان کا مخالف نہیں تھا ہم پارٹی کو مضبوط، بہتراور فعال بنانے کے لیے کام کرتے تھے لیکن تین سال سے مسلسل میرے حلقے میں مداخلت ہورہی ہے اور مجھے سیاسی نقصانات دینے کی کوشش کی گئی۔