اسلام آباد:(سچ خبریں) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات کو آئینی مدت سے آگے بڑھانے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔
ملکی سیاسی و مجموعی صورتحال کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اہم اجلاس مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اراکین نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اجلاس میں 9 مئی کے واقعات، دفاعی، فوجی تنصیبات پر حملے کی مذمت کی وہیں، ان حملوں کو تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا اور حکومت کو واضح طور پر یہ تجویز دی گئی ہے کہ اس طرح کے فتنے کی بیخ کنی ہونی چاہیے اور سخت سے سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ اپنے سیاسی طویل سیاسی سفر میں ہم نے ملکی اتار چڑھاؤ کو قریب سے دیکھا ہے، گزشتہ سالوں میں ایسا نظر آیا ہے کہ پاکستان کے اسلامی تعارف اور اس کی اس شناخت کو تبدیل کردیا گیا ہے اور دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک سیکولر ریاست کا روپ دھار چکا ہے، جبکہ قیام پاکستان کا بنیادی مقصد ملک میں اسلام کا عادلانہ نظام ہے۔
انہوں نے کہا کہ جماعت نے کارکنان کو ہدایت کی ہے کہ ملک کی اسلامی شناخت کی بحالی، پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے، معیشت کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے، اسلام کے زرعی اصولوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کو ازسرنو مرتب کریں اور اسے انتخابی مہم کا حصہ بنائیں اور اعتدال پر مبنی رویوں کو فروغ دیا جائے، یہ ہماری زندگی کے بنیادی اہداف میں سے ہے۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور پاکستان کا مفاد ہونا چاہیے، خارجہ پالیسی میں دوطرفہ مفادات کا تحفظ ہماری ترجیح ہے، بھارت کے پڑوسی ممالک کے خلاف جارحانہ رویوں کی مذمت کرتے ہیں، کشمیر پر قبضہ عمران، مودی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے، کشمیر پر قبضہ کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجلس شوریٰ نے عام انتخابات کی تیاری کے لیے چاروں صوبائی جماعتوں کو ہدایت کردی ہے، انٹرا پارٹی انتخابات سے نئی رکنیت سازی کا اغاز کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ چینی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے ہیں، سی پیک منصوبے کی صورت میں 70 سال بعد پاک۔چین دوستی ایک معاشی دوستی میں تبدیل ہوئی، گزشتہ دور حکومت میں عالمی ایجنڈے کے تحت سی پیک منصوبے کو منجمد کیا گیا، یہ بات امریکی خارجہ پالیسی کا محور بن گئی کہ اگر کوئی سی پیک کے حق میں ہے تو وہ امریکا دشمن اور اس کے خلاف ہے تو امریکا دوست ہے، عمران خان کی حکومت نے اس کو اپنی حکومت کا ایک بنیادی ایجنڈا قرار دیتے ہوئے اس کو منجمد کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ عمران حکومت نے 70 ارب سے زیادہ کی چینی سرمایہ کاری کو ڈبویا، اس کے اعتماد کو تباہ کیا، چین کے ساتھ اعتماد کو بحال کرنے کی ضرورت ہے، اس طرف سفر جاری ہے اور یہ اعتماد بحال ہوگا اور مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے اس کو دعوت دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان خود کو صادق و امین قرار دیتا ہے لیکن کوئی دوست ملک اس کے اقتدار میں واپس آنے کے امکان کی صورت میں ایک پیسہ بھی پاکستان کو دینے کے لیے تیار نہیں ہے اور جن لوگوں کو چیئرمین پی ٹی آئی چور کہتا ہے، ان کو تمام ممالک پیسہ دینے کو تیار ہیں، یہ کیسی الٹی گنگا ہے جو پاکستان میں بہائی جارہی ہے، کیوں ہماری نئی نسل اور قوم کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں ہے، جب الیکشن ہوتے ہیں تو ہر پارٹی اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرتی ہے، حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے باہمی تعلقات بہت اچھے رہے ہیں، ضمنی الیکشنز میں ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے تو علاقائی طور پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا ماحول موجود رہے گا اور اس حوالے سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا ماحول بناسکیں گے، اصولی طور پر ہم پورے ملک میں ہر سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا کریں گے، اپنے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں گے اور جہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت بن سکے گی، ہم ضرور بنائیں گے۔
سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ آئین کے تقاضے کے مطابق الیکشن ہوں گے، اس حوالے سے کوئی ابہام موجود نہیں ہیں، اگر الیکشن تاخیر سے ہوتے ہیں، آئینی مدت سے آگے بڑھتے ہیں تو انتخابات کو آئینی مدت سے آگے بڑھانے کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے، اس کا فیصلہ کسی پارٹی یا شخصیت نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے، اگر انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے ہیں تو پھر اس کا شیڈول الیکشن کمیشن نے دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں نفرت، گالم گلوچ اور غلط رجحانات پیدا ہوئے ہیں، یہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے، ماضی کی وہ اچھی روایات اور اقدار کہاں چلی گئیں، ہماری سیاست میں بچپنا کیوں آگیا، ایک دوسرے کی تذلیل کرنا، قیادت کی سطح پر لوگوں کے ناموں کو بگاڑنا، یہ جو ہماری نئی نسل کے اخلاق کو بگاڑا ہے، یہ قابل نفرت چیزیں ہیں، ہم اس گند سے نفرت کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اس کی اصلاح ہوجائے، ہمارے نوجوان کو اخلاقی تعلیم دینے کی ضروت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ چیز ہمارے نظام تعلیم کا حصہ ہونی چاہیے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر میرے گھر پر حملہ ہوگا تو اس کے کرب کا اندازہ مجھے ہوگا، کیپیٹل ہل پر حملہ ہوا، ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا، جب ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے تو ان کو تشویش ہوتی ہے، پھر ان کو یہ غیر جمہوری رویے نظر آتے ہیں، جس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہیں، اسی میں ہمیں بھی دیکھیں، مدعی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنا دعویٰ کس طرح دائر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم حکومت پر زور ڈال رہے ہیں کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف جو میگا کرپشن کے کیسز ہیں، وہ اب تک میچور کیوں نہیں ہو رہے، کیوں اس کے خلاف ایف آئی آر نہیں آرہیں، پشاور میں بی آر ٹی، بلین ٹری سونامی، مالم جبہ، صحت کارڈ، توشہ خانہ جیسے میگا کرپشن کیسز سامنے آرہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والا راتوں رات گرفتار ہوسکتا ہے، اس کو سی کلاس جیل میں ڈالا جاسکتا ہے، اس کی بیٹی کو اس کے ساتھ جیل میں ڈالا جاسکتا ہے، اہلیہ بستر مرگ پر ہے، اس سے رابطے کی اجازت نہیں ہے۔
صدر پی ڈی ایم نے کہا کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ جو رویہ ان کے ساتھ رکھا گیا، وہ کسی اور ساتھ رکھا جائے لیکن یکطرفہ رویہ نہیں ہونا چاہیے، جو لوگ صادق و امین کے لبادے میں خود کو چھپائے ہوئے ہیں اور وہ اندر سے تاریخ کے بہت بڑے مجرم ہیں، ان کو سامنے لانا چاہیے، عجب بات تو یہ ہے کہ آج ہماری عدلیہ جو ہے وہ جرم کے تحفظ کے لیے رہ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو سوچنا چاہیے، اس کے ووٹر کو چاہیے کہ وہ خود اپنی قیادت سے سوال کرے کہ تین سال حکومت کی، اپنی ایک کارکردگی بتادو کہ آپ نے اس ملک کے لیے کیا کیا، ہمارے منصوبے سب نیچے چلے گئے، ملک کی معشیت انڈوں اور کٹوں پر آگئی، آپ اندازہ کریں کہ ملک کی معیشت کو کہاں پہنچادیا گیا، شرح نمو صفر سے نیچے چلی گئی اور جس نے ان کو ووٹ دیا ہے کیا وہ خود کو اس کا ذمے دار نہیں سمجھے گا، کیا وہ نہیں سوچے گا کہ میرے ووٹ سے اتنا بڑا مجرم پاکستان پر مسلط رہا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے ووٹرز کو اپنی اور پاکستان کی خوشحالی کی فکر ہے، اگر وہ نظریاتی لوگ ہیں تو ان کو ان چیزوں کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے، دیکھنا چاہیے کہ کس نے ملک کو اخلاقی اور معاشی لحاظ سے کس نے دیوالیہ کیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے اگر عدالت غیر جانب دار ہو، میری نظر میں تو اس پارٹی کو ہونا ہی نہیں چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اندھی نہیں ہوتیں، ہماری جماعت کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں لیکن اگر کسی نے جرم کیا ہے تو پارٹی میں شمولیت سے اس کے جرائم معاف نہیں ہوجائیں گے، مجرم کو عدالت کا سامنا کرنا ہے اور قانونی مراحل سے گزرنا چاہیے۔