سچ خبریں: سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے انگلش زبان صارفین نے سید حسن نصراللہ کی شہادت کو مزاحمتی تحریک کی مزید تقویت کا باعث قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت نے اس جرم کے ذریعے ہزاروں افراد کو سید مقاومت کی مانند پیدا کر دیا ہے۔
ان دنوں صیہونی حکومت نے مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ کی مالی، فوجی، انٹیلی جنس اور سفارتی مدد سے غزہ اور لبنان میں اپنی جنایتوں میں اضافہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا سید حسن نصراللہ کی شہادت سے مزاحمتی تحریک شکست کھا جائے گی؟حماس کا بیان
غزہ کی مکمل تباہی اور وہاں 41 ہزار سے زیادہ شہادتوں سے لے کر لبنان میں حزب اللہ کے کمانڈروں کے قتل اور الیکٹرانک سازوسامان کی تباہی تک، سب اس ظلم کا حصہ ہیں۔
صیہونی حکومت کا تازہ ترین دہشت گردانہ حملہ جمعہ کی شام کو پیش آیا، جب صیہونی جنگی طیاروں نے بیروت کے ضاحیہ علاقے میں حارہ حریک کے رہائشی مقامات کو 8 سے 12 طیاروں کے ذریعے بمباری کا نشانہ بنایا، اس حملے میں 2000 پاؤنڈ وزنی امریکی ساختہ بم استعمال کیے گئے جو پہلی بار صیہونی فضائیہ نے استعمال کیے۔
اس وحشیانہ حملے کے بعد، حزب اللہ نے اعلان کیا کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ شہید ہو گئے ہیں، بیان میں کہا گیا کہ تقریباً 30 سال تک فتوحات کی قیادت کرنے کے بعد جناب سید حسن نصراللہ اپنے عظیم اور جاویدان شہداء ساتھیوں سے جا ملے ہیں۔
اس خبر کے بعد دنیا بھر کی توجہ لبنان اور صیہونیوں کی اس دہشت گردانہ کارروائی کی جانب مبذول ہوئی، سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کو خاص اہمیت دی گئی، اس رپورٹ میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کے انگریزی بولنے والے صارفین کے خیالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
امریکی سیاسی اور میڈیا کارکن، جیکسن ہینکل نے سید مقاومت کی تصویر کے ساتھ لبنان کے پرچم کی ایک تصویر اور ٹوٹے ہوئے دل کے ایموجی کے ساتھ ایک پوسٹ شیئر کی۔
انہوں نے لکھا کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کی شہادت نے مجھے شدید غمزدہ کر دیا ہے،اس پوسٹ کو تین ملین سے زیادہ بار دیکھا گیا، آٹھ ہزار بار شیئر کیا گیا اور 54 ہزار لائکس ملے۔
کئی صارفین نے مختلف ممالک میں حزب اللہ کے شہید رہنما کی حمایت میں ہونے والی خودجوش ریلیوں کا حوالہ دیا۔
ایک صارف نے اپنی ذاتی پروفائل پر بھارت میں ہونے والے احتجاج کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا:
یہاں لبنان نہیں ہے…
یہاں بھارت ہے…
حزب اللہ کے رہنما نصراللہ کی قتل کے خلاف احتجاج۔
کچھ صارفین نے سید مقاومت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ حسن نصراللہ ہمیشہ زندہ رہیں گے، ان کے ولولہ انگیز بیانات، ان کی یکجہتی اور مزاحمت صیہونی شیطان کے خلاف جنگ میں اس وقت تک گونجتی رہے گی جب تک اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہو جاتا۔
ایک اور صارف نے سید نصراللہ کی ایک تصویر کے ساتھ، جس کا پس منظر سیاہ تھا، لکھا کہ کہانی زندہ ہے۔
ایک صحافی صارف نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل نے ایک سید حسن نصراللہ کو شہید کیا، لیکن ایک ہزار نصراللہ پیدا کیے اور مزید کہاکہ ہم مقابلہ کریں گے۔
دیگر صارفین نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا، ایک صارف نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمت جاری رہے گی اور لاکھوں حسن نصراللہ ہیں جو اسرائیل کو شکست کا مزہ چکھائیں گے۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ اگر نصراللہ شہید ہو جائیں تو ہزاروں نصراللہ آئیں گے انشاءاللہ،یہ تبصرہ لوگوں کی مزاحمت کے تسلسل اور اسرائیل کے خلاف جنگ میں شدت لانے کی امید کا عکاس ہے۔
ایک اور صارف نے سید حسن نصراللہ کی شہادت کی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے، حماس کے موقف کو نمایاں کیا، جس میں اس فلسطینی مزاحمتی گروپ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ نصراللہ کی شہادت صرف مزاحمت کو مضبوط کرے گا۔
اس صارف نے اپنی پوسٹ کے آخر میں لکھا کہ ان شاء اللہ مزاحمت فتح یاب ہوگی،یہ جملہ دیگر صارفین کی طرف سے زبردست پذیرائی اور مثبت ردعمل کے ساتھ سامنے آیا۔
بہت سے صارفین نے سید حسن نصراللہ کی تعریف کی اور ان کے لیے دعا کی، ایک صارف نے اس دہشت گردانہ حملے کو غمناک اور دل دہلا دینے والا قرار دیتے ہوئے نصراللہ کو ایک باعزت شخص کہا جو صیہونی حکومت کے شیطان صفت عناصر کے خلاف ڈٹ کر لڑے اور آخر تک مزاحمت کی۔
ایک اور صارف نے ایران، شام، عراق اور لبنان و فلسطین کی مزاحمتی گروپوں کے جھنڈوں کے ساتھ ایک پوسٹ میں لکھا کہ حزب اللہ اور حماس عوامی تحریکیں ہیں، جن کے کسی ایک رکن کے شہید ہونے یا گرفتار ہونے پر دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے، 1948 سے دنیا کی بہترین فوج بھی انہیں شکست نہیں دے سکی۔
سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کی قیادت کے بارے میں بھی صارفین نے گفتگو کی، ایک صارف نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ 32 سال پہلے 1992 میں سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد اسرائیلی اخبارات نے لکھا کہ حزب اللہ کے ساتھ کشیدگی اور جھڑپوں کا دور ختم ہو چکا ہے۔
اس صارف نے مزید کہا کہ پھر کیا ہوا؟ وہ قوم جس کے رہنما شہید ہو جائیں، ناقابل شکست ہوتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حزب اللہ کی تشکیل کے بعد سے اس کے تین سکریٹری جنرل رہے ہیں؛ صبحی طفیلی، سید عباس موسوی اور سید حسن نصراللہ، ان میں سے دو یعنی سید عباس موسوی اور سید حسن نصراللہ شہید ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: سید حسن نصراللہ کی شہادت سے خطے میں عدم استحکام مزید بڑھے گا، پاکستان
مزاحمتی تحریک کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مزاحمتی محور کبھی بھی کسی ایک شخص پر منحصر نہیں رہا اور نہ ہی آئندہ ہوگا، حزب اللہ ہر ایک رہنما کی شہادت کے بعد پہلے سے زیادہ پرعزم اور مضبوط ہو کر سامنے آیا ہے۔