سچ خبریں: سابق صیہونی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ نیتن یاہو جھوٹا ہے اور وہ ہر معاملے میں، خاص طور پر فیلادلفیا کوریڈور کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے۔
انہوں نے نیتن یاہو کے مخالف تمام حکام اور آبادکاروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کی حکومت کے خاتمے تک احتجاج جاری رکھیں اور اسے مزید تیز کریں۔
یہ بھی پڑھیں: نیتن یاہو کو مظاہرین کی آواز کیوں نہیں سنائی دیتی؟: وال اسٹریٹ جرنل
سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک، جو غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک کئی بار موجودہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر تنقید کر چکے ہیں اور انہیں اسرائیل کے گہرے بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ اکتوبر کے بعد سے اسرائیل کو غزہ پر مسلسل حملوں میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
ایہود باراک نے اسرائیلی ٹی وی چینل 13 کے ایک پروگرام میں کہا کہ نیتن یاہو کو برطرف کیا جانا چاہیے، کیونکہ وہ 7 اکتوبر کو اسرائیل کی بدترین شکست کا ذمہ دار ہے، جو اسرائیل کی تاریخ کی سب سے دردناک شکست تھی۔ نیتن یاہو غزہ جنگ کے ناقص انتظام کا بھی ذمہ دار ہے۔
انہوں نے نیتن یاہو کی فیلادلفیا کوریڈور پر پوزیشن کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو اس کوریڈور کے بارے میں ہر چیز پر جھوٹ بولتے ہیں، جو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں رکاوٹ ہے اور اسرائیلی قیدیوں کی مسلسل موت کا سبب بن رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 80 فیصد اسمگلنگ رفاہ سرحد کے ذریعے مصر سے غزہ جاتی ہے۔ نیتن یاہو جھوٹا ہے اور فیلادلفیا کوریڈور حماس کے رہنما یحییٰ السنوار کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
سابق اسرائیلی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں آبادکاروں کو سول نافرمانی کرنی چاہیے اور نیتن یاہو کے مخالف حکام کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرنی چاہیے، جس میں اسرائیلیوں سے اپیل کی جائے کہ وہ ملک بھر میں ہڑتال کریں۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک نیتن یاہو کی غیر قانونی حکومت ختم نہیں ہو جاتی، جو روزانہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
ایہود باراک کے ٹی وی چینل 13 پر انٹرویو کے بعد، نیتن یاہو کے ایک شدت پسند حامی نداوی ہاتزنی نے باراک کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں انسانیت کی سب سے نچلی نسل قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ باراک فوجیوں اور افسران کو فوج میں خدمت سے انکار پر اکسا رہے ہیں۔
اس شدت پسند نے کہا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک اسرائیلی چینل نے کیسے ایہود باراک کو مدعو کیا کہ وہ اس سے بات کرے، اس کے بعد پروگرام کے میزبان کے ساتھ اس کی جھڑپ ہوئی، اور میزبان نے اسے اسٹوڈیو سے باہر نکال دیا۔
دوسری طرف، اسرائیلی فوجی امور کے رپورٹر “دورون کدوش” نے اسرائیلی فوجی ریڈیو پر بتایا کہ شاباک (اسرائیلی سکیورٹی سروس) کی معلومات کے مطابق اگست میں جنوبی لبنان سے شمالی اسرائیل پر سب سے زیادہ راکٹ فائر کیے گئے۔
اس دوران جنوبی لبنان سے اسرائیل کی شمالی بستیوں پر 1307 راکٹ داغے گئے، جو روزانہ کی بنیاد پر 40 راکٹ بنتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے راکٹ حملے جنوری کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہو چکے ہیں۔
شاباک کی معلومات کے مطابق حزب اللہ کے بڑھتے ہوئے حملے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اس کے جنگجوؤں اور کمانڈروں کی ہلاکت کا ردعمل ہیں، لیکن یہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔
صرف دو روز قبل ہی حزب اللہ نے شمالی اسرائیل پر 115 راکٹ داغے، حالانکہ اسرائیلی فوج نے اس کے کسی بھی رکن کو نشانہ نہیں بنایا تھا۔
اسرائیلی ماہر نے کہا کہ جو منظر اب ہم دیکھ رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ شمالی اسرائیل ایک ایسے مینڈک کی مانند ہے جو ابلتے پانی میں ہے، اور یہ پانی تیزی سے گرم ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف، کریات شمونہ کے میئر “اویخائی سٹرن” نے کہا کہ اسرائیلی کابینہ اب بھی لبنان کو پتھر کے دور میں واپس بھیجنے کی دھمکی دے رہی ہے؛ لیکن حقیقت میں ہم خود پتھر کے دور میں واپس جا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: نیتن یاہو کے فلادلفیا کوریڈور کے دعووں پر عرب ممالک کا شدید ردعمل
انہوں نے ایک بار پھر اسرائیلی حکام کی شمالی محاذ کے حالات پر توجہ نہ دینے اور تل ابیب جیسے مرکزی علاقوں پر توجہ مرکوز کرنے پر تنقید کی اور طنزیہ انداز میں پوچھا: کیا شمال میں ہمارا خون مرکزی علاقوں میں بسنے والے اسرائیلیوں کے خون سے کم قیمتی ہے؟