سچ خبریں: اسرائیل نے پہلے فلسطینیوں کے مکانات کو مسمار کرنے، انہیں زبردستی ہجرت پر مجبور کرنے اور غیر قانونی یہودی آبادکاری کو فروغ دینے جیسے حربوں سے قدس کی یہودی سازی کی منصوبہ بندی کی تھی، لیکن اب انتہا پسند کابینہ کے ذریعے مسجد الاقصی کو یہودی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایک طرف اسرائیلی حکومت کی غاصبانہ اور نسل کشی کی کارروائیاں جاری ہیں اور دوسری طرف اس حکومت کی انتہا پسند کابینہ کی پالیسیوں نے تل ابیب کو بین الاقوامی سطح پر اسٹریٹجک تنہائی کا شکار کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ کے درمیان بیت المقدس کے خلاف صہیونی سازش کے بارے میں انتباہ
چند روز قبل، اسرائیل کے وزیر برائے داخلی سلامتی، “ایتامار بن گویر جو اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے لیے مشہور ہیں، نے ایک متنازعہ بیان میں کہا کہ ہماری پالیسی ہمیں کوہِ معبد (مسجد الاقصی) میں نماز پڑھنے کی اجازت دیتی ہے، وہاں یہودیوں اور مسلمانوں کے لیے قوانین برابر ہیں، اور میرا ارادہ ہے کہ وہاں ایک کنیسہ (یہودی عبادت گاہ) بناؤں۔”
دنیا کا غصہ اور بن گویر کے بیان پر انتہا پسند کابینہ کی پسپائی
بن گویر کے اس بیان نے دنیا بھر میں شدید ردعمل پیدا کیا، حماس، فلسطینی مجاہدین، رام اللہ، الازہر، اردن، سعودی عرب، مصر، امارات اور دیگر ممالک نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
احتجاجوں کی شدت اتنی بڑھ گئی کہ مغربی ممالک کے حکام نے بھی اسرائیلی وزیر اور اس کی بیان کردہ خطرناک منصوبوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسی حوالے سے، اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے ایک پریس کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ اس قسم کے بیانات کا نتیجہ ہمیشہ منفی ہوتا ہے اور ان سے پہلے سے کشیدہ صورتحال مزید بگڑنے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے بیت المقدس میں مقدس مقامات کی حساسیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان مقامات کے حوالے سے موجودہ متفقہ صورتحال کا احترام کیا جانا چاہیے۔
اس کے علاوہ، اسرائیلی وزیر کے اشتعال انگیز بیانات کو اسرائیلی کابینہ کے بہت سے اراکین اور نتن یاہو کے مخالفین نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
حالانکہ وہ اندرونی طور پر قدس اور مسجد الاقصی کی یہودی سازی کے حق میں ہیں، لیکن ان کا ماننا تھا کہ بن گویر کے بیانات مسائل پیدا کریں گے۔
نتن یاہو کے دفتر نے فوری طور پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ مسجد الاقصی کی موجودہ صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی۔
فوراً بعد، نتن یاہو کی کابینہ کے وزیر تعلیم “یوآو کیش”، وزیر داخلہ “موشے آربل”، نتن یاہو کے مخالف رہنما “یائیر لاپید”، سابق شاباک سربراہ “آمی الون” اور سابق وزیر جنگ “بینی گینٹز” نے بھی بن گویر کے بیان کی مذمت کی۔
یہاں تک کہ یہودی ربّیوں نے بھی اس اقدام کے خلاف بیانیہ جاری کیا۔ بن گویر اسرائیل کے سب سے انتہا پسند سیاستدانوں میں سے ہیں، جو فلسطینیوں اور مسلمانوں کے تمام آثار کو مٹانے کے خواہاں ہیں۔
وہ کئی بار انتہا پسند آبادکاروں کے ساتھ مسجد الاقصی میں داخل ہو کر اس مقدس مقام کی بے حرمتی کر چکے ہیں، جس پر شدید اندرونی اور بیرونی تنقید ہوئی ،اسرائیلی حکام بھی انہیں قابض ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
وہ فلسطینیوں کے خلاف جنگ اور غزہ میں قتل و غارت کے سخت حامی ہیں اور خبردار کر چکے ہیں کہ جیسے ہی نتن یاہو جنگ بندی کے معاہدے پر راضی ہوں گے، وہ کابینہ سے علیحدہ ہو جائیں گے اور اتحادی حکومت کو ختم کر دیں گے۔
صہیونیت کا باطل عقیدہ: مسجد الاقصی کی بے حرمتی کا بہانہ
اسرائیلی ریاست مسجد الاقصی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور اسے منہدم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، کیونکہ ان کے باطل عقیدے کے مطابق، اس مسجد کے نیچے ہیکل (معبد) موجود ہے، جسے وہ دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
مسجد الاقصی کو مسمار کرنے اور اس کی جگہ ایک یہودی معبد بنانے کا خیال، صہیونی انتہاپسندوں کے عقائد میں جڑ پکڑا ہوا ہے اور یہ منصوبہ کئی سالوں سے انتہا پسند گروہوں کے ذریعہ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
امریکہ میں موجود عیسائی صہیونی تحریک اس منصوبے کی سب سے بڑی حامی ہے، جو اپنے صہیونی نظریات کی بنیاد پر دعویٰ کرتی ہے کہ مسجد الاقصی کی تباہی اور سلیمان کے تیسرے معبد کی تعمیر ناگزیر ہے۔
صہیونی دعویٰ کرتے ہیں کہ سلیمان کے پہلے اور دوسرے معبد مسجد الاقصی کے نیچے واقع ہیں، اور ان کے مطابق، اس معبد کی دوبارہ تعمیر کے لیے مسجد الاقصی کو مسمار کرنا ضروری ہے۔
اسی مقصد کے تحت صہیونی کئی دہائیوں سے مسجد الاقصی کے نیچے کھدائیوں میں مصروف ہیں تاکہ معبد کے آثار ڈھونڈ سکیں اور مسجد الاقصی کی تباہی کو آسان بنا سکیں۔
1967 سے 1981 کے دوران قدیم شہر قدس اور مسجد الاقصی کے نیچے سرنگیں کھودی گئیں، جن میں سے ہر سرنگ کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے، لیکن 21ویں صدی کے بعد کھودی گئی بیشتر سرنگوں کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں، جو ایک مشکوک صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے۔
مسجد الاقصی کے نیچے کھدائیوں کے اثرات اور فلسطینیوں کا احتجاج
مسجد الاقصی کے نیچے خفیہ طور پر شروع کی گئی کھدائیوں کے چند سال بعد، مسجد کے کچھ حصے بیٹھ گئے، جس کے نتیجے میں ارد گرد کے کچھ گھروں کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔
اس مسئلے نے فلسطینی حکام کی جانب سے سخت احتجاج کو جنم دیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے (یونیسکو) کو کھلے خط لکھے، جن میں مطالبہ کیا گیا کہ ایک حقائق کی چھان بین کرنے والی کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ ان کھدائیوں کا جائزہ لیا جا سکے جو اسرائیلی حکومت نے مسجد الاقصی کے نیچے انجام دی ہیں۔
قدس کی یہودی سازی کے صہیونی منصوبے
سیاسی ماہرین اسرائیلی وزیر برائے داخلی سلامتی کی مسجد الاقصی میں ایک کنیسہ تعمیر کرنے کی بات کو مقبوضہ قدس کی یہودی سازی کے وسیع منصوبے کا حصہ سمجھتے ہیں۔
“یہودی سازیٔ قدس” وہ اصطلاح ہے جو صہیونی ریاست کی جانب سے مسلسل کوششوں کو بیان کرتی ہے، جس کا مقصد مقبوضہ قدس کی اسلامی اور عیسائی تاریخی شناخت کو ختم کرنا اور اس شہر پر ایک نئی، یہودی شناخت مسلط کرنا ہے۔
1967 میں جب اسرائیل نے قدس پر قبضہ کیا تو اس وقت سے اس نے اس شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ اسرائیلی حکومت نے قدس اور اس کے رہائشیوں کے خلاف کئی اقدامات کیے۔
ان میں سے سب سے اہم حربے فلسطینی زمینوں کی ضبطی اور غیر قانونی یہودی بستیوں کی توسیع ہیں، جو قدس کی یہودی سازی کے منصوبے کا حصہ ہیں۔
ان حربوں کے نتیجے میں یہودی آبادکاروں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا، جبکہ قدس میں عرب فلسطینیوں کی آبادی میں کمی واقع ہوئی،مزید یہ کہ بھاری ٹیکس عائد کرنا اور گھروں اور عمارتوں کو بغیر اجازت نامے کے تعمیر کا بہانہ بنا کر مسمار کرنا، قدس کو یہودی بنانے کی اسرائیلی پالیسیوں کا حصہ ہیں۔
عبری زبان کے کچھ میڈیا ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بن گویر اپنے وزارت خانے کے ذریعے قدس کی زیادہ سے زیادہ یہودی سازی کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
اسرائیلی ریڈیو اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک (کان) نے اعلان کیا ہے کہ بن گویر نے اپنی وزارت کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے، جس کے تحت مشرقی قدس میں واقع “جبل الهیکل” پر صہیونی حاکمیت کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔
اس رپورٹ کے پروڈیوسر “موشے تشاینمنتز” نے کہا ہے کہ بن گویر نے وزارت داخلہ کے اہداف اور پالیسیوں پر مبنی ایک کتابچہ تیار کیا ہے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس ہدایت نامے کے تحت یہودیوں کو اس علاقے میں ترجیحی حقوق دیے جائیں گے، اور وہ جبل الهیکل پر اپنی مذہبی رسومات کو انجام دے سکیں گے۔
سیکیورٹی فورسز اور پولیس بھی اس منصوبے کی تکمیل میں مدد فراہم کریں گے۔
مزید پڑھیں: صیہونی حکومت کس طرح بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہے؟
ماہرین کا ماننا ہے کہ اسرائیلی حکومت عرب ممالک کی جانب سے کسی سنجیدہ اقدام کے نہ ہونے اور اسلامی و عیسائی قیادتوں کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا رہی ہے، اور اپنے یہودی سازی کے منصوبوں پر عمل کر رہی ہے۔
غزہ اور مغربی کنارے میں ہونے والے واقعات پر عرب ممالک کی خاموشی اور بعض اوقات ان کی ساز باز، قابض حکومت کو فلسطینی عوام کے خلاف اپنے منصوبے آگے بڑھانے کی ترغیب دے رہی ہے۔