سچ خبریں: صیہونی حکومت نے سید حسن نصراللہ کو شہید کرنے کے لیے 80 ٹن سے زیادہ امریکی ساختہ بموں کا استعمال کیا جس سے اگرچہ سید حسن نصراللہ شہید ہو گئے،لیکن مزاحمتی تحریک اب بھی زندہ ہے۔
سید حسن نصراللہ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف امریکی ساختہ مورچہ شکن بموں سے کیے گئے بزدلانہ حملے کے بعد صیہونی حکومت نے ایک پرانی اصطلاح کو دوبارہ زندہ کیا جسے طویل عرصے سے بھلا دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایک نصراللہ کو شہید کر کے اسرائیل کو کیا ملا؟
جب 2003 میں امریکی فوج نے عراق پر حملہ کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر ہزاروں عراقیوں کو قتل کیا اور اس ملک کے وسائل لوٹ لیے تو 2006 میں کاندولیزا رائس نے خطے کے بحرانوں کو نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کی تکالیف قرار دیا تھا، یہ ایک منصوبہ تھا جس کے باوجود کہ اس پر انسانی، فوجی اور مالی وسائل کا بڑا خرچ آیا واشنگٹن کے طے شدہ اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔
اس منصوبے میں حزب اللہ اور حماس کو ختم کرنا، خطے میں مزاحمتی تحریک کو تباہ کرنا، بشار الاسد کی حکومت کو گرانا، ایران اور عراق کو تقسیم کرنا، فرقہ واریت کو ہوا دینا اور یمن میں جنگ کا فروغ شامل تھا، کولن پاول نے اس منصوبے کو گریٹر مڈل ایسٹ کے نام سے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی۔
لیکن خطے میں تبدیلی کے خواہاں تمام لوگ ناکام رہے اور طاقت کے کھیل سے باہر ہو گئے، جبکہ مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کا یہ علاقہ اب بھی یہاں کے عوام کے قبضے میں ہے۔
صیہونی حکومت بھی اپنے قیام کے وقت سے یہی ہدف رکھتی تھی اور ابتدائی مراحل میں فلسطین کے پورے علاقے پر قبضہ اور پھر اردگرد کے ممالک پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھتی رہی، اس مقصد کے لیے اسے مغربی ممالک، امریکہ حتیٰ کہ بعض علاقائی بادشاہوں کی بھرپور حمایت بھی حاصل رہی۔
لیکن جو چیز ان تمام منصوبوں کو ناکام بنانے کا باعث بنی، وہ مزاحمتی تحریک تھی، جس نے عوامی حمایت اور اللہ کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے طاقت حاصل کی اور اسرائیل کو نہ صرف دیگر ممالک پر قبضے کے خواب سے دور کر دیا بلکہ مکمل فلسطین پر قبضے کا تصور بھی بھلا دیا، اور اسرائیل صرف ان علاقوں کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے جو وہ اب تک قتل و غارت کے ذریعے حاصل کر چکا ہے۔
اسرائیل کے لیے یہ ذلت بہت بھاری ثابت ہوئی اس کی جانب سے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کئی کوششیں ناکام رہیں، اس ذلت کا سلسلہ اسرائیلی فوجیوں کو 2000 میں جنوبی لبنان سے نکالے جانے، 2006 کی 33 روزہ جنگ اور پھر 33، 22، 11، اور 6 روزہ جنگوں میں شکستوں سے جڑا ہوا ہے۔
صیہونیوں کی اس ذلت آمیز شکست کے بعد، مغربی شیطانوں نے امریکہ کے ذریعے ایک منصوبہ شروع کیا جس میں ایک بے عقل اور ظالمانہ طاقت کو تشکیل دیا گیا، جو جدید وسائل سے لیس ہو، لیکن دانشمندی سے عاری ہو۔
اس منصوبے کے تحت مختلف تکفیری گروہوں کو وجود میں لایا گیا۔ اس وحشیانہ اور بے رحم منصوبے کا بنیادی مقصد مزاحمت کے مراکز کو تباہ کرنا تھا۔
تاہم، اس کا نتیجہ مزاحمتی تحریک کی تقویت اور ان دہشت گرد گروہوں کی تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔
مزاحمتی تحریک کی تکفیری گروہوں کے ساتھ ساتھ صیہونیوں کے خلاف جاری جنگ کے دوران، طوفان الاقصی کا واقعہ پیش آیا، جس نے صیہونی حکومت کو ایک شدید انٹیلیجنس، سیکیورٹی اور فوجی ضرب پہنچائی۔
یہ ضرب اتنی شدید تھی کہ اسرائیل مکمل تباہی سے بچنے کے لیے بچوں اور عام شہریوں کا قتل عام کرنے پر اتر آیا، یہ قتل عام تاریخ میں صیہونی تاریخ کے ناپاک اور سیاہ ترین صفحات میں درج رہے گا۔
اس سب کے باوجود، اسرائیل کے وہ اہداف جو اس نے غزہ جنگ کے آغاز میں طے کیے تھے، پورے نہ ہو سکے، اسرائیل، امریکہ اور مغرب کی واحد کامیابی غزہ کے لوگوں کا قتل عام اور بچ جانے والوں پر بھوک مسلط کرنا رہی ہے۔
اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے خطے میں ایک نیا دور طلوع ہو رہا ہے، اور یہ اس وقت ہو رہا ہے جب ایک کمانڈر کو قتل کرنے کے لیے 80 ٹن سے زیادہ مورچہ شکن بم استعمال کیے جاتے ہیں اور تمام بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں اس ظلم پر شرمناک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی ہی قراردادوں کی حمایت کرنے کی ہمت نہیں رکھتیں جو 1864 کے جنیوا کنونشن میں منظور کی گئی تھیں۔
مزید پڑھیں:کیا سید حسن نصراللہ کی شہادت سے مزاحمتی تحریک شکست کھا جائے گی؟حماس کا بیان
یہ خطہ تبدیل ہو رہا ہے کیونکہ اسلامی بیداری پوری طرح پھیل چکی ہے اور آزاد فکر رکھنے والی قومیں ہوشیاری سے عالمی مجرموں کے سامنے ڈٹ چکی ہیں۔
وہ بغیر کسی خوف کے دن رات احتجاجی مظاہرے کر رہی ہیں اور اسرائیل کی نابودی کا مطالبہ کر رہی ہیں، اب ظلم و جبر، قید و بند اور قتل عام قوموں کی بیداری کو نہیں روک سکتا۔