سچ خبریں: پاکستانی سینیٹ کی دفاعی امور کمیٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای نے فلسطین اور عالمی حالات پر جامع اور مکمل گفتگو کی
انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی کی برسی کے موقع پر ایران سمیت دنیا بھر میں ان کی یاد میں تقریبات منعقد ہوئیں۔
پیر کو اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی کی 35ویں برسی کے موقع پر مختلف اقسام کے لوگ اور حکام امام خمینی کی قبر پر جمع ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای کے بیان کو سنا۔
یہ بھی پڑھیں: آیت اللہ خامنہ ای کی حالیہ تقریر کا مسلمانوں پر کیا اثر رہا؟
اس تقریب میں اسلامی ممالک اور دیگر ممالک کے مہمان بھی موجود تھے۔ اس تقریب میں پاکستان کی سینیٹ کی دفاعی امور کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید، پاکستان کی حکومت اور عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے شریک تھے۔
اس تقریب کے بعد پاکستان کی سینیٹ کی دفاعی امور کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں خوش ہوں کہ امام خمینی کی برسی کے موقع پر اس تقریب میں شرکت کی، آیت اللہ خامنہ ای نے بہت جامع خطاب فرمایا، جو کوئی بھی ان کا خطاب سنے گا، وہ سمجھ جائے گا کہ عالمی مسائل پر ان کا مطالعہ کتنا وسیع ہے اور وہ دنیا کے تھنک ٹینکس میں ہونے والی باتوں سے بھی باخبر ہیں۔
امام خمینی کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے تین اہم موضوعات پر بات کی، انہوں نے غزہ کے بارے میں کئی مسائل بیان کیے اور نام لیے بغیر دنیا کے مشہور تجزیہ کاروں کے بیانات اور تجزیے نقل کیے۔
انہوں نے غزہ کے حوالے سے کہا کہ طوفان الاقصی ایک بڑا واقعہ ہے جو دنیا کے راستے کو بدل دے گا، یہ اسرائیلی حکومت کی نابودی کا آغاز ہے اور یہ دنیا کے لیے ایک واضح پیغام تھا، انہوں نے طوفان الاقصی کے اثرات اور نتائج پر بھی بات کی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے شہید رئیسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ امام خمینی کے حقیقی پیروکار تھے اور انہیں کے راستے پر چلے،انہوں نے کہا کہ ماضی میں بہت سے صدور آئے لیکن رئیسی کا عوام کے ساتھ بہت مضبوط تعلق تھا، آپ نے ایران کے آنے والے انتخابات اور ایک بہترین صدر کی خصوصیات کے بارے میں بھی بات کی۔ واقعی یہ ایک مکمل اور جامع خطاب تھا۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ میں نے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای علاقائی مسائل پر مکمل عبور رکھتے ہیں اور جامع تجزیے پیش کرتے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کے بغیر اسرائیل کا وجود برقرار نہیں رہ سکے گا اور آیت اللہ خامنہ ای نے اس نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا کہ تاریخ میں پہلی بار، عیسائی اور دیگر مذاہب کے پیروکار بھی اسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔
انہوں نے امریکی طلباء کے نام آیت اللہ خامنہ ای کے حالیہ خط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ خط بہت امید افزا ہے، آیت اللہ خامنہ ای پہلے مسلمان رہنما ہیں جنہوں نے امریکی طلباء کی تحریک کی حمایت کی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 1989 کے اوائل میں امام خمینی نے سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف کو ایک خط لکھا تھا، جس میں کمیونزم کی موت، سوویت یونین کے لیے مغرب پر انحصار سے بچنے کی ضرورت اور انہیں اسلام کی دعوت دینے کے بارے میں تھا۔
مزید پڑھیں: امریکی طلباء کے نام آیت اللہ خامنہ ای کے خط کا جائزہ
امام خمینی نے اس خط میں جو نکات ذکر کیے تھے وہ بالکل درست ثابت ہوئے، جب میں نے آیت اللہ خامنہ ای کا امریکی طلباء کے نام خط پڑھا تو مجھے امام خمینی کے اس خط کی یاد آگئی، آیت اللہ خامنہ ای نے اس خط میں امریکی طلباء کی تعریف کی اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
شہید آیت اللہ رئیسی کی سفارت اور اسلامی روابط کی توسیع
شہید آیت اللہ رئیسی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت سنبھالنے کے بعد ہمسایہ اور مسلمان ممالک کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات کو بڑھایا، انہوں نے خاص طور پر پاکستان، ترکی، سعودی عرب اور آذربائیجان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے بہت کوششیں کیں، اس شہید نے اپنی آخری غیر ملکی دوروں میں سے ایک کے دوران پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
پاکستان کا دورہ؛ ایک اسلامی دانشمند کا استقبال
ان کا پاکستان کا دورہ محض ایک سیاسی شخصیت اور صدر کا دورہ نہیں تھا بلکہ ایک اسلامی دانشمند کا ہمارے ملک کا دورہ تھا، انہوں نے پاکستان کا بہت مفید دورہ کیا، شہید رئیسی نے اس دورے کے ایک ہفتے بعد اسلام آباد میں اپنے سفیر، جناب علی رضا مقدم کو تہران طلب کیا اور اس دورے میں طے پانے والے معاہدوں کی پیشرفت کے بارے میں رپورٹ طلب کی، انہوں نے کہا کہ اس دورے میں طے پانے والے معاہدوں کو درست طریقے سے نافذ کیا جانا چاہیے۔
اسرائیل کے فیصلوں کی کنجی امریکہ کے ہاتھ میں
اسرائیل کے فیصلے امریکہ کے کنٹرول میں ہیں، امریکہ جنگ سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، نیتن یاہو جانتے ہیں کہ جنگ بندی کا نتیجہ ان کی حکومت کا خاتمہ ہوگا، دوسری طرف، اسرائیل سیاسی، سفارتی، نفسیاتی، اخلاقی اور قانونی لحاظ سے جنگ میں شکست کھا چکا ہے، آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود، تل ابیب غزہ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
جنگ بندی کی اہمیت اور امریکی سیاست
دوسری طرف جنگ بندی جو بائیڈن کے لیے بہت اہم ہے، اگر جنگ جاری رہتی ہے تو جو بائیڈن انتخابات میں شکست کا سامنا کریں گے، بائیڈن کی پارٹی کے اندر بھی ان کے اسرائیل کی حمایت کی وجہ سے مخالفت ہو رہی ہے، جو بائیڈن کو مجبوراً جنگ بندی کرانی ہوگی۔