واشنگٹن (سچ خبریں) یونیورسٹی آف میری لینڈ کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں امریکی فوج میں انتہا پسندی کی شدت کے حوالے سے اہم انکشاف کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکا میں حاضر سروس اور سابق فوجیوں سے متعلق رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والے فوجیوں میں 3گنا اضافہ ہوا ہے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے انسدادِ دہشت گردی سے متعلق پروگرام اسٹارٹ کے تحت جائزہ رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں 354 افراد کا تجزیہ کیا گیا ہے، جن کا فوج سے تعلق ہے یا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2017ء کے بعد سے پیش آنے والے واقعات کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ انتہاپسندوں نے عسکری صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاکر خود کو منظم کرلیا ہے، ان واقعات میں سرفہرست رواں برس 6 جنوری کو امریکی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر حملہ ہے۔
کیپٹل ہل کے واقعے میں 563 افراد کو الزامات کا سامنا ہے ،جن میں سے 15 فیصد کا تعلق امریکی فوج سے ہے۔
رپورٹ کے مطابق کانگریس کے محاصرے میں فوج سے تعلق رکھنے والے 78 فیصد افراد ایسے تھے، جو کسی انتہا پسند نظریے سے جڑے ہوئے تھے۔
سابق فوجیوں اور حاضر سروس اہل کارں میں انتہاپسندی کی جانب مائل ہونے کے رجحان میں اضافے کے باعث وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے فوج کی صفوں کے اندر انتہا پسندی سے لڑنے کو اولین ترجیح قرار دیا ہے۔
انہوں نے ہدایت جاری کی کہ فوج کو خیرباد کہنے کی تیاری کرنے والوں کے لیے تربیتی عمل کو بڑھادیا جائے، وزیر دفاع کے حکم پر فوری طور پر ایک لائحہ عمل ترتیب دیا گیا، جس میں انتہا پسندوں کے چھوٹے سے گروہ کو بھی ادارے کے لیے تباہی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔
پینٹاگون کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ ان کے پاس اس بات کے شواہد ہیں کہ انتہا پسند گروہوں نے ملٹری سروسز کے اندر دخل اندازی کی کوشش کی اور حاضر سروس فوجیوں کو بھرتی کیا۔
محکمہ دفاع نے ماتحت اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوج میں مداخلت کرنے والے عناصر پر نظر رکھیں، یونیورسٹی آف میری لینڈ کی رپورٹ کے شریک مصنف مائیکل جیسن کا کہنا ہے کہ انتہاپسندی کی طرف مائل زیادہ تر افراد کا ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے۔
ان میں اکثر وہ ہیں، جو فوج چھوڑ چکے ہیں، اس سے قبل سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیزنے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ دہشت گردی کے منصوبوں میں ملوث فوجی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔