ٹرمپ اور میڈیا کے درمیان تناؤ، امریکہ میں آزادی اظہار کے لیے خطرے کی گھنٹی

امریکہ

?️

ٹرمپ اور میڈیا کے درمیان تناؤ، امریکہ میں آزادی اظہار کے لیے خطرے کی گھنٹی

 امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی پر مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی نے ایک بار پھر ان کے میڈیا مخالف رویّے کو اجاگر کر دیا ہے، جو آزادی اظہار کے حوالے سے امریکہ میں تشویش پیدا کر رہا ہے۔

جرمن ویب سائٹ ڈوئچے ویلے کے مطابق، ٹرمپ نے بی بی سی کے ایک پروگرام میں مبینہ طور پر ان کی تقریر کے مسخ شدہ انداز میں نشر ہونے کے بعد قانونی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بی بی سی کے اندر ادارتی جانبداری کے الزامات کے باعث دو اعلیٰ عہدے دار—ڈائریکٹر جنرل ٹِم ڈیوی اور نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز کی سربراہ ڈیبورہ ٹرنَس—نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب سابق مشیر مائیکل پریسکاٹ کی ایک داخلی یادداشت سامنے آئی، جس میں بی بی سی کی رپورٹنگ پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔ یادداشت میں کہا گیا کہ بی بی سی نے ہجرت، نسل پرستی اور خاص طور پر 6 جنوری 2021 کو ٹرمپ کی تقریر کے حوالے سے غیر متوازن کوریج پیش کی، جب واشنگٹن میں ان کے حامیوں نے امریکی کانگریس پر حملہ کیا تھا۔

بی بی سی کے ٹرسٹیز کے چیئرمین سمیر شاہ نے برطانوی پارلیمنٹ کو لکھے گئے خط میں تسلیم کیا کہ ٹرمپ کی تقریر کی ایڈیٹنگ سے ایسا تاثر پیدا ہوا جیسے وہ براہِ راست تشدد پر اکسا رہے ہوں۔ بی بی سی نے اس "غلط فیصلے” پر معذرت بھی کر لی ہے۔

تاہم، ٹرمپ کے وکیل نے ادارے کو 14 نومبر 2025 تک معافی مانگنے، پروگرام واپس لینے اور ہرجانہ ادا کرنے کی ڈیڈ لائن دی ہے—بصورتِ دیگر بی بی سی کو ایک ارب ڈالر کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سیاسی مورخ ڈیوڈ ٹاؤنلی نے کہا کہ اگر ٹرمپ واقعی قانونی چارہ جوئی کرتے ہیں تو یہ نہ صرف بی بی سی کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا بلکہ امریکہ میں اس کی رپورٹس تک رسائی اور ناظرین پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرے گا۔

بی بی سی اپنی فنڈنگ عوامی لائسنس فیس سے حاصل کرتا ہے اور خود کو حکومتی اثر سے آزاد قرار دیتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس تنازع نے ادارتی غیر جانبداری پر سوال اٹھا دیے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں جب ٹرمپ نے میڈیا اداروں کو نشانہ بنایا ہو۔ وہ پہلے بھی سی این این، اے بی سی، سی بی ایس، نیویارک ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل جیسے بڑے اداروں کے خلاف بھاری ہرجانے کے مقدمے دائر کر چکے ہیں۔ ان کا رویہ اکثر تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف بھی سخت رہا ہے۔

ٹرمپ کے دورِ صدارت میں انہوں نے بعض صحافیوں کو وائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ سے بھی خارج کر دیا تھا، سرکاری میڈیا اداروں کی فنڈنگ میں کٹوتی کی، اور وائس آف امریکہ و دیگر بین الاقوامی نشریاتی اداروں پر دباؤ بڑھایا۔

صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق، ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت نے امریکہ میں آزادیِ صحافت کے لیے تشویشناک زوال کا آغاز کیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک میڈیا تنازع نہیں بلکہ حکومت اور چوتھے ستون یعنی پریس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی علامت ہے۔

جیسا کہ مورخ ٹاؤنلی نے کہا سوال یہ ہے کہ جب میڈیا دباؤ میں ہو تو آخر کون حکومت کو جواب دہ بنائے گا؟

مشہور خبریں۔

ترکی میں زلزلہ؛ حکومت نے 130 افراد کے گرفتاری وارنٹ جاری کئے

?️ 12 فروری 2023سچ خبریں:گزشتہ پیر کو آنے والے مہلک زلزلے کے چھ روز بعد

پائلٹوں اور افسروں کے بعد صیہونی ڈاکٹر بھی اسرائیلی ہڑتالوں میں شامل

?️ 8 اگست 2023سچ خبریں:ایک متعلقہ رپورٹ میں، عبرانی اخبار Haaretz نے لکھا کہ ڈاکٹروں

وزیراعظم  ایک روزہ دورے پر  لاہور پہنچ گئے

?️ 23 دسمبر 2021لاہور(سچ خبریں) وزیراعظم عمران خان ایک روزہ دورے پر لاہور پہنچ گئے،

پاکستانی اداکاراؤں پر حریم شاہ کی شدید  تنقید

?️ 6 جولائی 2021کراچی (سچ خبریں)پاکستان کی متنازع ٹک ٹاک اسٹار اور نئی اُبھرتی ہوئی

امریکی پولیس کا گھٹنہ اس بار 12 سالہ لڑکی کی گردن پر

?️ 20 مارچ 2022سچ خبریں:امریکی ریاست وسکونسن کے ایک اسکول میں ایک امریکی پولیس افسر

پارلیمنٹ بے توقیر ہے‘ ملک میں صدارتی نظام کی پھر بازگشت ہو رہی ہے، رضا ربانی

?️ 29 جنوری 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ آج پارلیمنٹ بے

وزیراعلیٰ سندھ سے ایرانی قونصل جنرل کی ملاقات، تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر اتفاق

?️ 16 اکتوبر 2025کراچی: (سچ خبریں) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ایران کے

تحریک انصاف کے پاس عدالتی فیصلے کے بعد ممکنہ 3 آپشنز موجود ہیں

?️ 8 اپریل 2022(سچ خبریں) سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے