سچ خبریں: یوں تو صیہونی حکومت نے شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس ملک کے ٹھکانوں کو طویل عرصے سے نشانہ بنایا لیکن ان حملوں میں گزشتہ چند دنوں سے مزید شدت آئی ہے۔
رائی الیووم اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان حساس حالات میں شام کی سرزمین پر صیہونی حکومت کے حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ شام نے اس حکومت کے لیے ایک حقیقی اور ضروری خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ شام کے خلاف تل ابیب کی جارحیت اس ملک کی فوج کی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے، جو اس کے مختلف علاقوں میں بجلی کی تیز رفتاری سے کی جاتی ہے۔
صیہونی حکومت اس بات پر مایوس ہے کہ وہ شام کے تنازعے کی مساوات کو دہشت گرد گروہوں کے حق میں تبدیل کر سکتی ہے۔ مختلف محوروں میں شامی افواج کی بہادری سے یہ گروہ عملی طور پر تباہ ہو رہے ہیں۔ تل ابیب شدت سے تمام ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، خاص طور پر شامی میزائل، جو ان کے بقول حزب اللہ فورسز کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔
ایک طرف یہ حکومت شام کو نشانہ بنا کر اس ملک کی خودمختاری کو کمزور کرنے اور فوج اور گروہوں کے درمیان تنازعات کے حل کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف عوام کی رائے کو شام کے خلاف مظاہروں سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ نیتن یاہو مقبوضہ علاقوں کے اندر۔ اس کے علاوہ شام کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکومت کی حکمت عملی غزہ اور لبنان میں ناکام ہو چکی ہے۔
القدس العربی اخبار نے رپورٹ کیا کہ واشنگٹن پوسٹ نے صیہونی حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ نے ٹرمپ کو تحفہ کے طور پر لبنان میں جنگ بندی کے لیے مجوزہ مسودہ تیار کیا ہے۔ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے سے قبل صہیونی حکام کو یہ بھی بتایا کہ انہیں لبنان کے مسئلے کو حل کرنے کے اس منصوبے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس طرح ٹرمپ خطے میں جنگیں ختم کرنے کے اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی نیتن یاہو شمالی علاقوں میں آباد کاروں کی ابتر صورتحال، صہیونی فوج کے مسائل اور مقبوضہ علاقوں میں معاشی بحران کی وجہ سے بھی یہ عمل چاہتے ہیں۔
لبنانی اخبار الاخبار نے لکھا ہے کہ نئے امریکی رہنماؤں کی طرف سے صہیونی حکام کو ملنے والے مثبت اشاروں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر نیتن یاہو ٹرمپ کو کوئی تحفہ دینے کے خواہاں ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ وہ مغربی کنارے پر قبضے کے اپنے خواب کو پورا کرنے پر راضی ہو جائیں۔ صیہونی حکومت نے عملی طور پر اس علاقے پر قبضے کا عمل شروع کر دیا ہے اور وہ صرف پارلیمنٹ سے اپنے سرکاری اعلان کا انتظار کر رہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس قبضے کے نتائج کے حوالے سے صرف ایک بیان جاری کیا ہے۔
شام کے الثورا اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ نیتن یاہو جیسا ڈکٹیٹر اقتدار میں رہنے کے لیے جنوب اور شمال میں صہیونی فوج سمیت سب کچھ قربان کر دے گا۔ صیہونی حکومت کی طاقت صرف رہائشی علاقوں کے خلاف فضائی حملوں اور ان کے مکینوں کے سروں پر عمارتوں کی تباہی تک محدود ہے۔ ادھر لبنان اور فلسطین میں مزاحمتی قوتیں ہر روز اپنی خصوصی کارروائیوں کو وسعت دے رہی ہیں اور تل ابیب کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ فلسطین اور لبنان میں ان کے مذموم عزائم کا ادراک کرنا ناممکن ہے۔ صہیونی فوج کی ہلاکتوں کی تعداد بتاتی ہے کہ یہ فوج کس بحران میں ہے۔
المقریب العراقی اخبار نے اطلاع دی ہے کہ لبنان کی اسلامی مزاحمتی قوتوں نے صیہونی حکومت کے فوجی ٹھکانوں کے ساتھ ساتھ صیہونی بستیوں کے خلاف 32 کارروائیاں کیں۔ ان کارروائیوں میں جنوبی لبنان میں صیہونی افواج کی پیش قدمی کو بے اثر کرنا اور مقبوضہ سرزمین کی گہرائی میں صیہونی افواج کے اجتماع کے مقامات کو نشانہ بنانا شامل ہے۔ پہلی بار لبنان کی سرحدوں سے 120 کلومیٹر دور صیہونی حکومت کی ملٹری انٹیلی جنس برانچ سے تعلق رکھنے والے تل ہیم بیس کو نشانہ بنایا گیا۔
یمنی المسیرہ اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ یمنی شہریوں نے اس ملک کے صوبوں کے 360 چوکوں میں غزہ اور لبنان کی حمایت کے لیے جو انسانی طوفان برپا کیا ہے اس کا مطلب صرف ریلیاں نکالنا اور نعرے لگانا نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی بیداری اور تیاری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ حق اور مظلوم کا دفاع کرنا۔ شہید کمانڈر حسین بدرالدین الحوثی کے بیٹے کے اس انسانی طوفان کے بیان کو پڑھنے سے یمنی افواج کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور آنے والے بحرانوں کے خلاف یمن میں داخلی اتحاد کی سطح کا پتہ چلتا ہے۔