سچ خبریں: ایک مصری ڈاکٹر، جو جنگ کے پہلے دنوں سے غزہ میں موجود ہیں، نے لوگوں کی قابل رحم صورتحال پر رپورٹ پیش کی ہے اور کہا ہے کہ میڈیا غزہ میں ہونے والے سانحات کی حد تک کوریج نہیں دے سکتا۔
الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق مصر کے ماہر اور ہڈیوں کے سرجن احمد عبدالعزیز جو زخمیوں کے علاج کے لیے غزہ میں موجود ہیں، نے زور دیا کہ میڈیا غزہ میں رونما ہونے والے سانحات کی عکاسی نہیں کرسکتا، اس علاقے میں تعمیراتی ملبے کے ڈھیروں کو ہٹانے کے آلات نہیں ہیں اور یہ ملبہ خاندانی مقبرے بن چکے ہیں جن کے نیچے پورے پورے خاندان دبے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں فلسطینی بچوں کی تباہ کن صورتحال کے بارے میں یونیسیف کا بیان
اس گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو ہر ممکن طریقے سے جنگ کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس خطے میں صحت کی تباہی کے پیمانے کے مطابق طبی امداد فراہم کرنی چاہیے۔
عبدالعزیز ان پہلے ڈاکٹروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے مصر میں اپنی پریکٹس بند کر دی اور زخمیوں کے علاج کے لیے رضاکارانہ طور پر غزہ کا سفر کیا۔
انہوں نے غزہ کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی کی خبر دی اور مزید کہا کہ رہنے کے لیے موزوں مکان تلاش کرنا مشکل ہے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ ایسی جگہوں میں رہتے ہیں جو انسانوں کے رپنے کے قابل نہیں ہوتیں ،یہاں بہت سے خاندان ایسے ہیں جو صرف ایک کمبل کے ساتھ رہتے ہیں اپنے لیے رازداری پیدا کرتے ہیں اور آسمان کے علاوہ ان کا کوئی سایہ نہیں ہوتا، ان کے پاس پینے کا پانی اور بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے اور انہیں باقاعدہ کھانا نہیں ملتا، غزہ میں تباہی کی شدت تصور سے باہر ہے۔
اس مصری ڈاکٹر نے نشاندہی کی کہ غزہ کے لوگوں کے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور یہ ابتر صورت حال جاری رہے گی کیونکہ وہاں تعمیر کے لیے کوئی مناسب جگہ نہیں ہے اور اسرائیلی حملوں کی وجہ سے تعمیراتی ملبہ اور کھنڈرات کو ختم کرنا ضروری ہے۔
غزہ میں صحت کی صورتحال
عبدالعزیز نے غزہ کی پٹی میں صحت کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ طبی ٹیمیں سامان کی شدید کمی کا شکار ہیں، شہادت یا گرفتاری کی وجہ سے ان کی تعداد بھی بہت کم ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی تھکاوٹ کے باوجود طاقت کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں، غزہ میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 70 ہزار سے زائد ہے، ان میں سے زیادہ تر کی ہڈیاں ٹوٹی ہیں یا گہرے زخم ہیں یا ان کی رگیں اور شریانیں کٹ چکی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھیڑ بھاڑ کے نتیجے میں قدرتی بیماریاں بھی پھیلتی ہیں اور بہت سے کیسز میں ڈاکٹروں کو بیمار کے جسم کا حصہ کاٹنا پڑتا ہے جس سے ہسپتالوں میں انتہائی تکلیف دہ مناظر پیدا ہوتے ہیں۔
غزہ کے لوگوں کی افسانوی شجاعت
اس کے ساتھ ہی اس مصری ڈاکٹر نے غزہ کے لوگوں کی بہادری کی تعریف کی اور اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی ان کے عزم، صبر اور شکر کو نہیں توڑ سکتا، ان تمام مسائل کے باوجود وہ اپنی سرزمین بچانے پر اصرار کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: غزہ میں صیہونیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے بچوں کی تعداد
ڈاکٹر احمد عبدالعزیز غزہ جنگ کے بعد پہلے طبی عملے کے ساتھ اس علاقے میں داخل ہوئے اور اب 195 دنوں سے شمالی غزہ میں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میری عمر اس وقت 75 سال ہے اور میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ مجھے باقی زندگی کی ضرورت نہیں ہے۔