غزہ جنگ میں امریکی دوغلی پالیسی،خفیہ دباؤ سے کھلی حمایت تک

غزہ جنگ

?️

غزہ جنگ میں امریکی دوغلی پالیسی،خفیہ دباؤ سے کھلی حمایت تک

غزہ پر جاری جنگ کے دوران امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات نے ایک ایسا متضاد اور متنازعہ نمونہ پیش کیا ہے جس میں پسِ پردہ دباؤ کے باوجود عملی طور پر اسرائیل کو کھلی سیاسی اور عسکری آزادی دی گئی۔ امریکی پالیسی نے جہاں بظاہر شہری ہلاکتوں پر تشویش ظاہر کی، وہیں عملی اقدامات کی کمی نے اسرائیل کے لیے ایک ’’کھلا چیک‘‘ فراہم کیا۔

غیرملکی جریدے فارن افیئرز کی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق، سات اکتوبر کے بعد غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ نے اسرائیل کے ساتھ کسی واضح فریم ورک یا شرائط کے تحت فوجی تعاون طے نہیں کیا۔ اسی غیرمشروط حمایت کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے مکمل آزادیِ عمل کے طور پر لیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنگ کے ابتدائی ہفتوں میں واشنگٹن نے نجی سطح پر اسرائیلی بمباری اور فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا، مگر عوامی بیانات میں اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کیا گیا۔ اس دوہرے رویے نے امریکہ کے دباؤ کو غیر مؤثر بنا دیا۔

امریکہ نے نہ تو اسلحے کی فراہمی کو دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا اور نہ ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اپنے ہی قوانین کو اسرائیل پر لاگو کیا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی سے متعلق قراردادوں کو ویٹو کرنا بھی اسرائیل کے لیے بالواسطہ تائید کے مترادف سمجھا گیا۔

صرف مئی 2024 میں، جب اسرائیل نے رفح میں کارروائی شروع کی، امریکہ نے محدود نوعیت کے ہتھیاروں کی ترسیل عارضی طور پر روکی، مگر یہ اقدام نہایت تاخیر سے اور ناکافی ثابت ہوا۔ انسانی امداد کے معاملے میں اگرچہ امریکی دباؤ کے باعث کچھ پیش رفت ہوئی، تاہم وہ بھی وقتی رہی۔

رپورٹ کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد امریکی پالیسی میں مزید تضاد دیکھنے میں آیا۔ ابتدائی طور پر انہوں نے جنگ بندی کی حمایت کی، مگر بعد ازاں اسرائیل کو مکمل آزادی دے دی۔ غزہ کا محاصرہ، امداد کی بندش اور خطے میں اسرائیلی فوجی مہمات پر واشنگٹن کی خاموشی نے بحران کو مزید سنگین بنا دیا۔

بالآخر، جب اسرائیلی اقدامات سے امریکہ کے علاقائی مفادات اور ساکھ کو خطرہ لاحق ہوا، تب ٹرمپ انتظامیہ نے براہِ راست دباؤ ڈال کر جنگ بندی کی راہ ہموار کی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کے پاس دباؤ ڈالنے کی صلاحیت ہمیشہ موجود تھی، مگر اسے بروقت اور مستقل طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ مستقبل میں بھی اسرائیل کے ساتھ ’’استثنائی تعلق‘‘ کی پالیسی پر قائم رہا تو غزہ میں پائیدار امن کے امکانات کمزور رہیں گے اور سب سے زیادہ نقصان عام فلسطینی شہریوں کو ہی اٹھانا پڑے گا۔

مشہور خبریں۔

غزہ جنگ میں صیہونیوں کی بےبسی؛صیہونی فوج کی زبانی

?️ 1 مارچ 2024سچ خبریں: صیہونی حکومت سے وابستہ ذرائع نے غزہ جنگ کے 147

نیتن یاہو نے عدالتی سماعت شمالی فلسطین میں فوجی مشق کے بہانے ملتوی کر دی

?️ 23 دسمبر 2025نیتن یاہو نے عدالتی سماعت شمالی فلسطین میں فوجی مشق کے بہانے

امریکہ یوکرین میں جنگ کا خاتمہ کیوں نہیں چاہتا ؟

?️ 19 جون 2024سچ خبریں: اقوام متحدہ میں چین کے نائب مستقل مندوب گینگ شوانگ نے

صیہونی حکومت اور شام کے درمیان نیا فوجی سیکورٹی معاہدہ

?️ 9 جون 2025سچ خبریں: حیفا یونیورسٹی کے پروفیسر اماتزیہ برعم نے آج معاریو کے

سعودی حکومت کا کورونا پابندیاں ختم کرنے کا اعلان

?️ 23 مارچ 2022سچ خبریں:سعودی عرب کی حکومت نے خانۂ کعبہ کے زائرین سمیت تمام

پولینڈ کا جرمن چانسلر پر خطرناک الزام

?️ 25 ستمبر 2023سچ خبریں: پولینڈ کے وزیر خارجہ نے ایک پیغام شائع کرتے ہوئے

بنگلہ دیشی سابق وزیراعظم کو سزائے موت

?️ 17 نومبر 2025سچ خبریں: بنگلہ دیش کے سابق وزیر اعظم کو انسانیت کے خلاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے