سچ خبریں: امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے ملک کے دیگر حکام کے دعووں کو دہراتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کے مذاکرات اور غزہ میں قیدیوں کے تبادلے میں 90 فیصد مسائل حل ہو چکے ہیں۔
بلنکن نے مزید کہا کہ ہم جنگ بندی کے معاہدے کے مقصد سے اپنے اتحادیوں مصر اور قطر کے ساتھ فعال بات چیت اور مشورت میں مصروف ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے کی صورت میں سعودی عرب اور اسرائیلی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا اب بھی امکان ہے۔
منگل کی شام، وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان، جان کربی نے دعویٰ کیا کہ وہ جنگ بندی کے مذاکرات میں زیرِ بحث 90 فیصد معاملات پر ایک سمجھوتے پر پہنچ چکے ہیں، یہ دعویٰ بنجمن نیتن یاہو کے ردِ عمل کے ساتھ ساتھ تھا اور وزیرِ اعظم نے کہا۔ قابض حکومت نے معاہدے کے قریب ہونے کی تردید کی۔
جان کربی نے معاہدے کی تفصیلات کے حوالے سے اپنی تقریر میں صحافیوں کو بتایا کہ معاہدے کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی فوجیوں کو آبادی والے علاقوں سے انخلا کرنا ہوگا اور معاہدے کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی فوجی غزہ سے مکمل طور پر نہیں نکلیں گے۔
واضح رہے کہ جب کہ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے کئی مہینوں کے بے نتیجہ مذاکرات گزر چکے ہیں، واشنگٹن پوسٹ نے بدھ کے روز امریکی حکومت کے نئے منصوبے کی خبر دی ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ جو بائیڈن اور ان کی نائب کملا ہیرس نے پیر کے روز اپنے مشیروں کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی حتمی تجویز کے بارے میں ملاقات کی، جو ممکنہ طور پر اس ہفتے اسرائیل اور حماس کو پیش کی جائے گی۔
جنگ بندی کے معاہدے کے حوالے سے امریکا کی جانب سے تجویز کردہ یہ تیسرا منصوبہ ہے، حماس نے امریکا کے پہلے پلان پر اتفاق کیا جسے ’جو بائیڈن‘ پلان کے نام سے جانا جاتا ہے، جو جون کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2735 کی بنیاد بھی تھی۔ 21، لیکن نیتن یاہو نے اس منصوبے کو قبول نہیں کیا۔