?️
سچ خبریں:ترکی کے ممتاز ماہرین کے مطابق، کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ہتھیار ڈالنے اور تنظیمی تحلیل کے پسِ پشت چھ اہم عوامل کارفرما ہیں جن میں بین الاقوامی دباؤ، علاقائی توازن اور تنظیم کا اندرونی بحران شامل ہے۔
ترکی کے معروف سیاسی تجزیہ کار نے وضاحت کی ہے کہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے تنظیمی طور پر خود کو تحلیل کرنے کے فیصلے کے پیچھے چھ بنیادی عوامل کارفرما ہیں۔
پس منظر
جدید تاریخ میں مشرق وسطیٰ میں متعدد مسلح اور نیم فوجی گروہ سرگرم رہے ہیں جو اپنے سیاسی اور سماجی مقاصد کے حصول کے لیے برسرپیکار رہے۔ ان میں سب سے نمایاں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) رہی ہے، جو پچھلی کئی دہائیوں سے عالمی توجہ کا مرکز رہی اور ترکی سمیت پورے خطے کی سیاسی و سماجی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
تاہم حالیہ برسوں میں اس تنظیم کی حکمت عملی میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ پی کے کے کی تحلیل کا اعلان اس گروہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے، جو اس کے نظریات اور جدوجہد کے طریقہ کار میں بنیادی تبدیلیوں کی علامت ہے۔
یہ فیصلہ کئی داخلی اور خارجی عوامل کے نتیجے میں سامنے آیا ہے، جس سے کرد برادری کے سیاسی و سماجی منظرنامے میں ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ بین الاقوامی دباؤ، علاقائی سیاست میں تبدیلیاں، اور تنظیم کے اندرونی مسائل اس تبدیلی کی اہم وجوہات ہیں۔
صدر یونیورسٹی اسکندر کے وایس چانسلر کے مشیر ،،ترکی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے تحقیقی مرکز کے رکن اور سیاسیات و بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کے پروفیسر دنیز اُولکے کاینک نے پی کے کے کے تحلیل کے چھ اہم عوامل کی نشاندہی کی:
1. نظریاتی بنیاد کا خاتمہ
پی کے کے کے مقاصد اور نظریات موجودہ کثیر قطبی عالمی نظام میں غیر مؤثر ہو چکے ہیں۔ اب دو مخالف نظریاتی قوتوں کے درمیان فرق باقی نہیں رہا، اور جیوپولیٹیکل توازن تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔
پی کے کے اپنی نظریاتی تعریف کے بحران کا شکار ہے اور اپنی اصل سوشلسٹ جڑوں کے باوجود ایک محدود قوم پرستانہ سوچ میں الجھ گئی ہے۔ پی کے کے کا بنیادی مطالبہ مادری زبان میں تعلیم ہے، جو اب سیاسی عمل سے بہتر طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔
آج کی دنیا استحکام اور سکیورٹی پر مرکوز ہے اور خود اوجالان نے بھی تسلیم کیا ہے کہ تنظیم موجودہ حالات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتی۔ اس طرح، پی کے کے نظریاتی اور عملی طور پر غیر مؤثر ہو چکی ہے۔
2. بین الاقوامی ہمدردی اور لاجسٹک امداد کا خاتمہ
2010 کی دہائی کے بعد خطے میں طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ عرب بہار کی ناکامی اور داعش کے عروج نے ابتدا میں پی کے کے کو بین الاقوامی حمایت دلائی، لیکن داعش کے خاتمے کے بعد پی کے کے کو عدم استحکام کا سبب سمجھا جانے لگا۔
کئی اہم بین الاقوامی تنظیموں کی کمزوری اور امریکہ و روس سمیت بڑی طاقتوں کی خطے سے پسپائی نے کرد مسلح گروہوں کے لیے لاجسٹک سپورٹ مشکل بنا دی ہے۔ اب پی کے کے کے حمایتیوں کے پاس حمایت جاری رکھنے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں رہا۔
3. علاقائی طاقت کا توازن
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلی آئی اور اسرائیل و ترکی کے حوالے سے مختلف ترجیحات سامنے آئیں۔ یورپی ممالک اب اپنے مسائل پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور روس سے خوف کی وجہ سے ترکی کو اپنے ساتھ رکھنے کے خواہاں ہیں۔ اس بدلتی صورتحال میں پی کے کے یورپی ممالک کی ترجیح نہیں رہی۔
4. ہم عصر تنظیموں کی تحلیل
پی کے کے جیسی کئی تنظیمیں جو اسی طرح کے حالات میں وجود میں آئی تھیں اور جنہیں عوامی حمایت بھی حاصل تھی، انہوں نے بھی مسلح جدوجہد ترک کر کے خود کو تحلیل کر لیا ہے۔
آئرش ریپبلکن آرمی (IRA)، ہسپانوی مارکسیٹ تنظیم ای ٹی اے (ETA)، اور کولمبیا کی فارک (FARC) کی مثالیں اس سلسلے میں نمایاں ہیں۔
5. فوجی و عملیاتی زوال
اردگرد کے علاقوں سے لاجسٹک سپورٹ کی کمی اور ترکی کی فوج، پولیس اور انٹیلی جنس کی جنگی ٹیکنالوجی میں پیش رفت نے پی کے کے کی اندرون ملک آپریشنل صلاحیت تقریباً ختم کر دی ہے۔ جدید ڈرون ٹیکنالوجی اور بارڈر پار حفاظتی اقدامات نے نہ صرف پی کے کے کے اراکین کی تعداد کم کی بلکہ نئے اراکین کی بھرتی میں بھی رکاوٹ ڈالی۔
6. قیادت کا بحران اور تبدیلی
پی کے کے کے بانی قائدین، خصوصاً عبداللہ اوجالان، اب عمر رسیدہ اور تھک چکے ہیں۔ وہ ترکی ریاست کے ساتھ چالیس سالہ تصادم کے بعد اب سمجھ چکے ہیں کہ اس راستے پر چلنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اوجالان کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی اپیل دراصل پی کے کے کی شدید ترین خود تنقیدی ہے۔ یوں، پی کے کے کے پاس اب کوئی اور راستہ باقی نہیں رہا۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
تحریک تحفظ آئین کا موجودہ حکومت کے خاتمے ‘ آزاد الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابات کا مطالبہ
?️ 5 مئی 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان کی جانب
مئی
ایران پاکستان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتا ہے، ایرانی صدر
?️ 28 جنوری 2024تہران: (سچ خبریں) ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ ایران پاکستان کی
جنوری
لبنان کے خلاف خطرناک صیہونی منصوبہ
?️ 2 نومبر 2024سچ خبریں:عالم عرب کے بڑے اخبارات میں اس وقت جنوبی لبنان کے
نومبر
وزیر خارجہ کی چینی وزیر خارجہ سے ملاقات، اہم امور پر تبادلۂ خیال
?️ 6 فروری 2022بیجنگ(سچ خبریں) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی چین کے اسٹیٹ کونسلر
فروری
کویتی کھلاڑی کا صیہونی کھلاڑی کے ساتھ کھیلنے سے انکار
?️ 23 مئی 2022سچ خبریں:کویتی پیرا اولمپک کمیٹی نے تاکید کی کہ "خلود المطیری” نے
مئی
3 صیہونی وزیروں نے ایک ساتھ استعفیٰ کیوں دیا؟
?️ 10 جون 2024سچ خبریں: الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں اعلان کیا کہ جنگ غزہ
جون
چین کا یوکرین کے مسئلے کو سیاسی طریقہ سے حل کرنے کے لیے آمادگی کا اعلان
?️ 16 فروری 2023سچ خبریں:تاس نیوز ایجنسی نے لکھا کہ پیرس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل
فروری
امریکیوں نے ممالک کے حکام سے لاوروف کے ساتھ تصاویر نہ لینے کی التجا کی
?️ 24 جولائی 2022روسی سفارتی سروس کی ترجمان ماریا زاخارووا کے مطابق، مختلف ممالک میں
جولائی