سچ خبریں:فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اور طوفان الاقصی آپریشن کے ماسٹر مائنڈ یحیی السنوار کی 7 اکتوبر 2023 کو شہادت کے بعد، ان کے جانشین کے حوالے سے قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں۔
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ یحیی السنوار کی شہادت کے بعد مختلف ناموں کو حماس کی قیادت سنبھالنے کے ممکنہ امیدواروں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے حماس کی سیاسی اور فوجی ڈھانچے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کیا اور مستقبل میں قیادت ان کے حوالے کی جا سکتی ہے۔
محمد ضیف
اسرائیلی حکومت نے 2001، 2002، 2003، 2006، 2014، 2023، اور 2024 میں محمد ضیف کو کم از کم سات بار قتل کرنے کی کوشش کی، مگر تمام کوششیں ناکام رہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مزاحمتی تحریک کے سربراہان کو شہید کر کے بھی صیہونی کیوں ہار جاتے ہیں؟
محمد ضیف اسرائیلی حکومت کی طرف سے سب سے زیادہ مطلوب افراد میں شامل ہیں اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں ان کے قتل کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں، ستمبر 2022 میں غزہ کے شیخ رضوان علاقے میں اسرائیلی میزائل حملے میں وہ بچ نکلے لیکن زخمی ہو گئے۔
حماس نے اگست 2023 میں اعلان کیا کہ اسرائیلی حملے میں محمد ضیف کی بیوی اور 7 ماہ کا بیٹا شہید ہو گئے لیکن ضیف اس وقت حملے کی جگہ پر موجود نہیں تھے۔
محمد ضیف حماس کی فوجی صلاحیتوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور انہوں نے عسکری شعبے میں منفرد حکمت عملی اختیار کی ہے، وہ میڈیا میں بہت کم نظر آتے ہیں اور عمومی طور پر اپنے پیغامات صوتی پیغامات کی صورت میں جاری کرتے ہیں۔
مروان عیسی
حماس کی عزالدین قسام بریگیڈز کے نائب کمانڈر اور حماس کے سیاسی و فوجی دفتر کے رکن مروان عیسی بھی اسرائیلی حکومت کے سب سے زیادہ مطلوب افراد میں شامل ہیں اور انہوں نے حماس کی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مارچ 2023 میں اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے مروان عیسی کو شہید کر دیا ہے، تاہم حماس نے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی، مروان عیسی، محمد ضیف کے دست راست اور قسام بریگیڈز کے دوسرے اہم رہنما سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے فلسطین کی پہلے انتفاضہ کے دوران اسرائیلی جیل میں 5 سال گزارے۔
اسرائیلی حکومت مروان عیسی کو حماس کی دماغوں کی جنگ میں سب سے نمایاں شخصیات میں شمار کرتی ہے اور اسے مردِ عمل کا لقب دیا گیا ہے۔
عیسی کی غیر معمولی ذہانت اور آپریشنل صلاحیتیں اتنی بلند ہیں کہ صیہونی حکام کا کہنا ہے کہ وہ پلاسٹک کو لوہے میں تبدیل کر سکتا ہے،یہ بیان اس کی فوجی صلاحیتوں کے فروغ اور مشکل حالات سے نمٹنے کی مہارت کی عکاسی کرتا ہے۔
خلیل الحیہ
خلیل الحیہ یحییٰ السنوار کے نائب اور حماس کی سیاسی اور عسکری سرگرمیوں میں ایک اہم رہنما ہیں، حالیہ دنوں میں، وہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں اور جنگ بندی کے حوالے سے فیصلے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
خلیل الحیہ بھی بارہا اسرائیلی قتل کی کوششوں سے محفوظ رہے ہیں، 2007 میں ان کے گھر پر اسرائیلی حملے میں ان کے خاندان کے کئی افراد شہید ہو گئے تھے جبکہ 2014 میں ایک اور حملے میں ان کے بڑے بیٹے کو شہید کر دیا گیا تھا۔
خالد مشعل
خالد مشعل حماس کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرنے والی شخصیت ہیں اور انہوں نے 1996 سے 2017 تک حماس کے سیاسی دفتر کی قیادت کی، شیخ احمد یاسین کے 2004 میں اسرائیلی حملے میں شہادت کے بعد، مشعل نے حماس کی قیادت سنبھالی۔
ان کا عقیدہ ہے کہ فلسطینی علاقوں کی آزادی کے لیے مسلح مزاحمت اور سیاسی جدوجہد بنیادی ستون ہیں۔ وہ حماس کی تشکیل کے وقت سے اس کے سیاسی دفتر کے رکن رہے ہیں۔
جب اردن نے عمان میں حماس کے دفتر کو بند کر دیا تو وہ خالد مشعل قطر منتقل ہو گئے، بعد ازاں وہ طویل عرصے تک شام میں مقیم رہے اور پھر 2012 میں دوبارہ حماس کے سیاسی دفتر کو قطر منتقل کیا۔
محمود الزہّار
محمود الزہّار حماس کے ایک اور اہم رہنما ہیں جو اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی دونوں کی جانب سے متعدد بار قتل اور گرفتاری کی کوششوں کا نشانہ بن چکے ہیں، وہ ان شخصیات میں شامل ہیں جنہیں اسرائیل نے ہمیشہ نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
ستمبر 2003 میں اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ شہر میں ان کے گھر پر میزائل حملہ کیا، جس میں ان کا بڑا بیٹا اور محافظ شہید ہو گئے، جبکہ ان کی اہلیہ اور بیٹی زخمی ہوئیں اور ان کا گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا، تاہم الزہّار اس حملے میں محفوظ رہے، ان کا دوسرا بیٹا 2008 میں اسرائیلی حملے میں شہید ہوا۔
الزہّار کو کئی بار قید کیا گیا ہے، 1988 میں انہیں اسرائیلی حکومت نے گرفتار کیا اور 1996 میں فلسطینی اتھارٹی نے انہیں گرفتار کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
2005 میں فلسطین کے پارلیمانی انتخابات میں حماس کی فتح اور اسماعیل ہنیہ کی بطور وزیر اعظم تقرری کے بعد، محمود الزہّار وزیر خارجہ بنے۔
محمد شبانہ
ابو انس کے نام سے معروف محمد شبانہ حماس کی عزالدین قسام بریگیڈز کے اہم فوجی کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں، وہ غزہ کے جنوبی علاقے رفح میں قسام بریگیڈز کے کمانڈر ہیں اور حماس کی زیر زمین سرنگوں کے نیٹ ورک کو وسعت دینے میں کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں، ان سرنگوں کا نیٹ ورک حماس کی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے،ابو انس کے نام سے بھی جانے جانے والے محمد شبانہ اسرائیلی فوجی گلعاد شالیت کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کرنے والے افراد میں شامل تھے اور اس آپریشن میں غزہ کی سرنگوں کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔
حماس کی یہ سرنگیں، جن کی دیکھ بھال اور تعمیرات کا ذمہ دار شبانہ ہے، اسرائیل کے لیے ایک اسٹریٹجک خطرہ سمجھی جاتی ہیں، حماس ان سرنگوں کو غافلگیرانہ حملوں اور دشمن کی سرزمین میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتی ہے، محمد شبانہ بھی اسرائیل کی جانب سے انتہائی مطلوب افراد میں شمار ہوتے ہیں۔
روحی مشتهی
روحی مشتهی یحیی السنوار کے قریبی ساتھی اور حماس کے اہم کمانڈروں میں سے ایک ہیں، انہوں نے 1980 کی دہائی کے اواخر میں حماس کے پہلے سکیورٹی نظام کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔
وہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی جاسوسوں کی شناخت کرنے کے ذمہ دار تھے اور حماس کی سکیورٹی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
مشتهی نے کئی سال اسرائیلی جیلوں میں گزارے اور 2011 میں گلعاد شالیت کے تبادلے کے معاہدے کے تحت رہا ہوئے، حماس میں ان کی ذمہ داریوں میں مصری حکام کے ساتھ سیکیورٹی رابطے خصوصاً رفح گزرگاہ اور دیگر سکیورٹی امور کے حوالے سے ہم آہنگی شامل رہی ہے۔
محمد السنوار
محمد السنوار یحیی السنوار کے بھائی اور عزالدین قسام بریگیڈز کے قدیم اور نمایاں کمانڈروں میں سے ایک ہیں، حماس کی فوجی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
وہ بہت کم میڈیا میں نظر آتے ہیں، لیکن ان کی عسکری کارروائیوں میں کلیدی شمولیت انہیں حماس کے اندر ایک اہم شخصیت بناتی ہے، محمد السنوار 1991 میں حماس میں شامل ہوئے اور وہ حماس کے مرکزی کمان کے ایک اہم رکن رہے ہیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، محمد السنوار متعدد بار اسرائیلی حکومت کی ناکام قاتلانہ حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں، جن میں فضائی حملے اور بم دھماکے شامل تھے، تاہم وہ ان تمام حملوں سے محفوظ رہے ہیں، تازہ ترین قاتلانہ حملہ 2021 میں ہوا تھا۔
مزید پڑھیں: ہنیہ کے جانشین کے طور پر السنوار کے پیغامات
محمد السنوار حماس کی جانب سے 2006 میں کرم ابو سالم گزرگاہ پر اسرائیلی فوجی مقام پر کیے گئے حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے، جس میں کئی اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے اور ایک اسرائیلی فوجی کو حماس نے قیدی بنا لیا تھا، یہ فوجی پانچ سال تک حماس کی تحویل میں رہا اور اسے ایک قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کے تحت یحیی السنوار سمیت ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں رہا کیا گیا۔