سچ خبریں: ایک امریکی خبر رساں ادارے نے اپنی مستند رپورٹ میں اسرائیلی فوج کے غزہ سے اغوا کیے گئے فلسطینیوں پر وحشیانہ تشدد کی ہولناک تفصیلات شائع کی ہیں اور بتایا ہے کہ ان میں سے درجنوں افراد تشدد کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق، غزہ کی جنگ کے آغاز سے ہی اسرائیلی فوجیوں کے فلسطینیوں پر وحشیانہ تشدد کی متعدد رپورٹیں سامنے آ چکی ہیں،تاہم امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے اغوا کیے گئے فلسطینیوں پر جنوبی فلسطین میں ایک فوجی اڈے پر کیے جانے والے مختلف قسم کے تشدد اور ظلم و ستم کا ذکر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی قیدیوں کے خلاف اسرائیل کے وحشیانہ جرائم پر حماس کا ردعمل
نیویارک ٹائمز کے رپورٹرپاتریک کنگزلی جو اس مقصد کے لیے تحقیقات کر چکے ہیں، نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیلی فوج نے انہیں مئی کے آخر میں مختصر وقت کے لیے جنوبی اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے فوجی اڈے سدی تیمان کے ایک حراستی مرکز کا دورہ کرنے کی اجازت دی۔
اسرائیلی فوج کا فلسطینی قیدیوں پر وحشیانہ تشدد
اس امریکی رپورٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسرائیلی فوجیوں اور کمانڈروں سے انٹرویو لیے جنہوں نے کہا کہ سدی تیمان ایک خفیہ فوجی اڈہ ہے جو غزہ کے رہائشی فلسطینیوں کے حراستی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے، اس مقام پر اسرائیلی فوج کی فلسطینی شہریوں کے ساتھ بدسلوکی کی بہت سی رپورٹیں موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، غزہ سے اغوا کیے گئے فلسطینی قیدیوں نے اس حراستی مرکز میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مار پیٹ اور حقوق کی پامالی کی بات کی۔
رپورٹر نے کہا کہ میں نے ایسے مرد دیکھے جو قطار میں بیٹھے تھے، ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی، اسرائیلی فوجی جالیوں کے پیچھے سے انہین دیکھ رہے تھے، قیدیوں کو اونچی آواز میں بولنے، کھڑے ہونے یا سونے کی اجازت نہیں تھی جب تک فوجی نہ کہیں، یہ وہ مناظر تھے جو میں نے سدی تیمان کے فوجی اڈے کے اندر دیکھے؛ جہاں تقریباً 4000 غیر فوجی غزہ کے رہائشی قید ہیں جن میں 7 اکتوبر کے دن اغوا کیے گئے درجنوں افراد بھی شامل ہیں۔
فوجی کمانڈروں کے مطابق، حراست میں لیے گئے 70 فیصد فلسطینی قیدیوں کو پوچھ گچھ مکمل ہونے کے بعد جیلوں میں منتقل کر دیا گیا تاکہ مزید تحقیقات کر کے ان پر مقدمہ چلایا جا سکے، جبکہ 1200 قیدیوں، یعنی تقریباً 30 فیصد کو غزہ واپس بھیج دیا گیا۔
غزہ کے رہائشی 38 سالہ ڈرائیور محمد الکردی جو 2023 کے آخر میں سدی تیمان کے حراستی مرکز میں قید تھے، نے بتایا کہ وہ اس مرکز میں 32 دن تک رہے اور ان کے قریبی لوگوں کو ان کے زندہ ہونے یا مر جانے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔
واضح رہے کہ نیویارک ٹائمز کی یہ رپورٹ تین ماہ کی تحقیق پر مبنی ہے، جس میں سابق فلسطینی قیدیوں، اسرائیلی فوجی افسران، ڈاکٹروں اور فوجیوں سے انٹرویوز شامل ہیں۔
بجلی کے جھٹکوں سے تشدد
نیویارک ٹائمز کے رپورٹر سے بات کرنے والے 8 فلسطینیوں نے بتایا کہ انہیں حراست کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے لاٹھی، بندوق کے بٹ اور دھاتی اشیاء سے شدید مارا پیٹا، ان میں سے 7 نے کہا کہ پوچھ گچھ کے دوران انہیں بالکل برہنہ کر دیا گیا ،3 فلسطینیوں نے کہا کہ اسرائیلی فوجیوں نے انہیں بجلی کے جھٹکوں سے تشدد کا نشانہ بنایا، دو افراد کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (UNRWA) کے حکام نے بھی متعدد فلسطینی قیدیوں سے بات کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اسرائیلی فوج غیر انسانی تشدد کے مختلف طریقے استعمال کرتی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے ایک اسرائیلی فوجی کے حوالے سے بتایا کہ فوجی قیدیوں کو مسلسل مار پیٹے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں، یہ فوجی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کر رہا تھا۔
اسرائیلی فوج کے افسران نے بتایا کہ 7 اکتوبر سے سدی تیمان میں 4000 قیدیوں میں سے 35 افراد تشدد کی شدت کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
فوجی اڈہ یا تشدد مرکز؟
حالیہ ہفتوں میں سدی تیمان کے خوفناک فوجی اڈے نے میڈیا کی توجہ حاصل کی ہے، سی این این نے بھی اس پر ایک رپورٹ شائع کی جس کی وائٹ ہاؤس نے تصدیق بھی کی ۔
اسرائیلی فوج نے ایک طویل بیان میں نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ منظم بدسلوکی کے الزامات درست نہیں ہیں اور یہ رپورٹس مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق غزہ کے 25 سالہ قانون کے طالب علم فادی بکر کو 5 جنوری کو اپنے خاندان کے محاصرے کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے گرفتار کیا، فادی بکر نے کہا کہ فوجیوں نے اس کے تمام سامان اور موبائل فون لے لیے اور اسے موت کے قریب تک مارا پیٹا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسرائیل نے حماس کے ساتھ پچھلی جنگوں کے دوران سدی تیمان فوجی اڈے کو فلسطینیوں کو قید کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
39 سالہ فلسطینی کمپوڈریونس الحملاوی نے بتایا کہ نومبر میں غزہ شہر کے الشفاء اسپتال پر اسرائیلی فوج کے حملے کے دوران انہیں گرفتار کیا گیا اور فوجیوں نے حماس سے رابطے کے الزام میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
مزید پڑھیں:فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کا وحشیانہ تشدد، اقوام متحدہ نے شدید مذمت کردی
یونس الحملاوی نے بتایا کہ فوجیوں نے انہیں ایک بجلی کی کرسی پر بیٹھنے پر مجبور کیا اور بجلی کے جھٹکے دیے۔
رپورٹر نے مزید بتایا کہ اسرائیلی فوجی قیدیوں پر جنسی تشدد بھی کرتے ہیں، جس کے جسمانی اور ذہنی اثرات ہوتے ہیں اور کئی قیدی تشدد کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں۔