(سچ خبریں) وہ ممالک جو خود کو سب سے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ کہتے ہیں ان کی تہذیب اور ترقی کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک طرف تو اسلامی ممالک کے تیل کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے لیکن دوسری طرف انہیں مسلمان دہشت گرد نظر آتے ہیں اور آئے دن مسلمانوں کے خلاف کچھ نا کچھ کہنے کو اپنے لیئے فخر محسوس کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائیٹس کونسل میں چشم کشا رپورٹ پیش کرنے والے ان افراد کا ہمیں ممنون ہونا ہے جنہوں اس کے ذریعہ سے مہذب سمجھے جانے والے ان تمام ممالک اور حکمرانوں کے چہرے سے پردہ اُٹھا دیا ہے، جن کی ہر تان مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے پر آکر ہی ٹوٹتی تھی۔
ان ممالک کو دنیا کی ہربد امنی کے پیچھے انھیں صرف مسلم ہاتھ ہی دکھائی دیتا تھا، یہ ممالک مسلم خواتین کے نقاب کو اپنی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ خیال کرتے تھے، ہر وہ باریش فرد جو کلمہ گو ہے انتہا پسند لگتا تھا، ان ممالک نے نہ صرف مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھا ہے بلکہ اپنی من مانی کرتے ہوئے اپنی پسند کی پالیسیاں مرتب اور نافذ کیں۔
ان اعمال سے بھی ان کو چین نہ آیا تو اپنی ریاستوں میں مسلم آبادی پر ناروا پابندیاں نافذ کرکے پنے ہی سماج میں انھیں اُچھوت بنا کے رکھ دیا گیا، وہ ارباب اختیار جو صبح وشام انسانی حقوق کی علمبرداری کا ورد کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے ان کو بھی آئینہ دکھایا گیا ہے۔
یہ ممالک دیگر مذاہب کو اپنے لئے خطرہ خیال نہیں کرتے، لیکن آفاقی مذہب اسلام کی ترویج یہ ٹھنڈے پیٹ برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، یہ جانوروں سے پیار تو کرتے ہیں لیکن خبث باطن کو چھپانے میں ناکام نظر آتے ہیں، مسلم کیمونٹی کے بارے میں، اقوام متحدہ کی ہیومن رایئٹس کونسل میں پیش کردہ رپورٹ سے کسی سماجی انقلاب کی تو توقع نہیں ہے لیکن اس سے کم از کم ظالم اور مظلوم کے درمیان حد فاصل قائم ہو جائے گی اور آئیندہ کسی جھوٹ اور پروپیگنڈہ کی بنیاد پر مسلم طبقہ کو یک طرفہ طورپر مورد الزام نہیں ٹھرایا جا سکے گا۔
مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے۔کہ اِسلام کے بڑھتے ہوئے اَثر ورسوخ سے خائف ممالک مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں،بعض ممالک اسلام کا منفی تاثر اُبھار کر مسلمانوں کو خوف زدہ کر رہے ہیں،جس سے ان ممالک میں بسنے والے مسلم باشندوں کی جان ومال کی سیکورٹی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں،اسی طرح کچھ ممالک نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک،دشمنی،تشدد کو مستقل اور جائز قرار دے دیا ہے،اِسلام دشمنی کے شکار اِن ممالک میں مسلمانوں کے خلاف ایک تصوراتی دیوار تعمیر کر رکھی ہے،جسکی آڑ میں انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے اور ریاستیں آنکھیں بندکر کے سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نائین الیون کے بعدامریکہ میں دہشت گرد حملے کے بعد مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا ہے،رپورٹ مرتب کر نے کے دوران اقوام متحدہ کی ٹیم کو مسلم کیمونٹی نے یہ بھی بتایا کہ بعض ممالک میں اَب بھی اِنکو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، ایک چھوٹی جماعت کی کاروائیوں کو پوری اُمت پر ڈال کر نفرت کا پرچار کیا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ کہا ہے کہ 2018 اور 2019 کے مابین یورپین سرویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یورپ کی 37 فیصد آبادی مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے، ریاستی سطح پر اور بعض اوقات نجی طور پر ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی تک روک دیا جاتا ہے، کئی ایک مسلم خواتین کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے، انہیں پردہ اور حجاب کر نے سے روکا جاتا ہے، اور ان پر سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں اور ملازمتوں کے دروازاے بند کئے جاتے ہیں، اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مسلم خواتین اور طالبات کے لئے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں،ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رپورٹ کئی ایک لحاظ سے نامکمل ہے، امکان غالب ہے کہ اس کو انسانی حقوق کی پامالی کی بابت ہی مرتب کیا گیا ہے اور اس میں وہ مسلم برادری شامل ہے جو مغربی ریاستوں میں مقیم ہیں۔
اقوام متحدہ ایک باوقار عالمی ادارہ ہے، جس کے فرائض منصبی میں دنیا کا اَمن بحال رکھنا بھی ہے، لیکن عمومی رائے یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے احکامات کو من وعن نافذ کرنے کے لئے اس مقتدر ادارہ کا کندھا ہی استعمال کرتی رہی ہیں، ورنہ افغانستان، عراق، لیبیا پر عالمی استعمار کی افواج کے مظالم کی داستان ضرور اس رپورٹ کا حصہ ہوتی، اس ادارہ کی ہی ناک کے نیچے لاکھوں زندہ انسان لقمہ اَجل بن گئے، بے گناہ، خواتین، بچے بوڑھے ڈراؤن حملوں کی زد میں آئے جو اقوام متحدہ کی نام نہاد قرار دادوں کا نتیجہ تھا۔
کیا تماشہ ہے وہ افراد جو عالمی طاقتوں کی نگاہ میں دہشت گرد تھے آج انہیں سے مذاکرات کی بھیک مانگی جارہی ہے، اس کو سیاسی قیادت مانا اور خطہ میں قیام امن میں ان کی کاوشوں کو سراہا جا رہا ہے۔
کیا اقوام متحدہ کے ناتوں کندھوں پر یہ اخلاقی ذمہ داری نہیں کہ مظلوم مگر مسلم خاندانوں کے لواحقین سے اپنی کوتاہی کی معافی مانگے، بے گناہوں کو اس کرب کو برداشت کر نے کا جزیہ دے اور اسی نوعیت کی ایک مکمل رپورٹ مرتب کر کے نہ صرف اس کو شائع کرے بلکہ سلامتی کونسل کے ایجنڈا پر رکھ تمام انصاف پسند ممالک کو اس پر مباحثہ کی دعوت دے تاکہ آئیندہ کے لئے ظلم اور جبر کا دروازہ بند ہو سکے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ انسانی حقوق کی پامالی اور امتیازی سلوک کی اس رپورٹ میں امریکہ بہادر کا بھی ذکر ہوتا کہ جس نے ایک نہتی مسلم سکالر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بناء کسی جرم کے پابند سلاسل کر رکھا ہے، فلسطین، کشمیر کی ان مسلم خواتین کو بھی اس رپورٹ میں زیر بحث لایا جاتا جو تاحال ظلم، جبر، اور بربریت کا شکار ہیں، تاکہ پورے عالم کے سامنےِ ان ممالک کے چہرے بھی آجاتے جو ریاستی دہشت گردی اور حقوق کی پامالی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔
کاش! اس نوع کی رپورٹیں مُسلم قیادت کی طرف سے بھی منظر عام پر آتی رہتیں تو مسلم کیمونٹی پر اس طرح کا جبر روا نہ رکھا جاتا جو رپورٹ کا حصہ ہے۔
اس رپورٹ کو مظلوم کی آواز بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن عالمی ادارہ کا محض یہ فریضہ نہیں کہ صرف رپورٹ شائع کر نے پر ہی اکتفاء کر ے، اقوام متحدہ کی اب یہ اخلاقی اور منصبی ذمہ داری ہے وہ ان ریاستوں پر معاشی، اور قانونی پانبدیاں عائد کرے جنہوں نے مسلم کیمونٹی پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔
البتہ اس آواز کو زیادہ توانا بنانے کی اہم ذمہ داری مسلم حکمرانوں پر بھی ہے کہ وہ اپنی کیمونٹی کے حق میں آواز اٹھا کر ان امتیازی اقدامات کی مذمت کریں، او آئی سی بھی اس رپورٹ کا جائزہ لے کر اپنا مثبت ردعمل دے، کیا اس کیمونٹی کی خدمات کم ہیں کہ وہ نامساعد حالات میں بھی غیر مسلم برادری کے لئے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں ، وہ ممالک اور ان کے حکمران کتنے کم ظرف ہیں جو اس کے باوجود مسلم کیمونٹی سے تعصب روا رکھتے ہیں۔