سچ خبریں: حالیہ دنوں میں یورپی تروئیکا اور امریکہ نے ایران کے خلاف نئی پابندیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے، جسے ایران کی جانب سے روس کو مبینہ طور پر بیلسٹک میزائل بھیجنے کا بہانہ بنایا گیا ہے، ان پابندیوں کا مقصد تین واضح اہداف کو حاصل کرنا ہے۔
حالیہ دنوں میں مغربی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تہران یوکرین کی جنگ میں ماسکو کی حمایت کر رہا ہے جسے بنیاد بنا کر مغربی ممالک نے ایران کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کے خلاف نئی امریکی پابندیاں
سب سے پہلے، 20 ستمبر کو، برطانیہ، فرانس اور جرمنی (تروئیکا) نے ایران کے بیلسٹک میزائلوں کو روس بھیجنے کے الزامات کی بنیاد پر ایران پر نئی پابندیاں عائد کیں۔
تروئیکا کے مشترکہ بیان میں، جسے جرمن وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا، کہا گیا کہ فرانسیسی، جرمن اور برطانوی حکومتیں ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائلوں کی روس کو مبینہ برآمدات کی سخت مذمت کرتی ہیں۔
یہ اقدام، جو روس کی جارحانہ جنگ میں ایران کی فوجی مدد کو بڑھاتا ہے، یورپ تک ایرانی میزائلوں کی رسائی کا باعث بن سکتا ہے اور یوکرینی عوام کی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔
اسی روز برطانوی وزارت خارجہ نے بھی ایران کی جانب سے روس کو مبینہ بیلسٹک میزائل بھیجنے کے الزام میں 7 افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔
بعد ازاں، امریکہ نے بھی اس اینٹی ایران مہم میں شامل ہو کر ایرانی اور روسی افراد، اداروں اور جہازوں پر مشتمل 20 افراد و اداروں پر پابندیاں عائد کیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے یہ پابندیاں تہران سے ماسکو کو مبینہ میزائل سپلائی کرنے کے الزام کی بنیاد پر عائد کیں، جسے روس یوکرین جنگ میں استعمال کر رہا ہے۔
ایران نے ان پابندیوں پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ،ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اس بارے میں کہا کہ وہ ممالک جو صیہونی حکومت کو ہتھیار، میزائل اور ممنوعہ بم فراہم کرتے ہیں، جنہیں فلسطینی مہاجرین کے رہائشی علاقوں ، غزہ اور مغربی کنارے میں شہریوں پر استعمال کیا جاتا ہے، وہ کیسے ایران کو بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر میزائل فروخت کرنے کے الزامات میں پابندیوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں؟
کنعانی نے اس سے قبل بھی کہا تھا کہ ایران اور روس کے درمیان فوجی تعاون یوکرین کی جنگ سے بہت پہلے کا ہے اور یہ دو طرفہ معاہدوں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران جنگ کے خلاف ہے اور روس اور یوکرین کے درمیان تنازعات کو سیاسی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی طاقتیں یوکرین کی جنگ کے حوالے سے ایران پر الزامات لگا کر کچھ واضح مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں، جن میں سے کم از کم تین اہم مقاصد کا ذکر کیا جائے گا۔
1. ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کی کوشش
اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ حالیہ دنوں میں یہ پالیسی شدت اختیار کر گئی ہے۔
اس کی وجہ ایران کی جوہری پیشرفت اور خطے میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے جس سے مغربی طاقتیں خوفزدہ ہو رہی ہیں۔
مغرب ایران کے خلاف مختلف الزامات لگا کر اپنے دشمنانہ اقدامات کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ایران کی عالمی طاقت بننے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں۔
مغربی ممالک کی یہ کوششیں ایران کی بین الاقوامی طاقت کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لیے ہیں۔
وہ ایران کے خلاف غیر قانونی اقدامات کو جائز دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ایران کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں۔
پابندیوں کے عوامی زندگی پر اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا،اسی حوالے سے ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے منگل کی رات اپنے ایک بیان میں کہ کہ تین یورپی ممالک کا یہ اقدام مغرب کی دشمنانہ پالیسی اور ایرانی عوام کے خلاف اقتصادی دہشت گردی کا تسلسل ہے، جس کا ایران مناسب جواب دے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب کا مقصد یہ ہے کہ اقتصادی دباؤ بڑھا کر ایران کے عوام اور حکام کے درمیان اختلافات پیدا کیے جائیں۔
مثال کے طور پر، ایران ایئر پر پابندی اور یورپی یونین کے تروئیکا کے بیان میں ایران کے ساتھ دوطرفہ ہوائی خدمات کی منسوخی کا اعلان، ایرانی عوام پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے کیا گیا ہے۔
2. غزہ میں ہونے والے مظالم سے عالمی توجہ ہٹانا
پچھلے 11 ماہ سے عالمی توجہ غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے مظالم پر مرکوز ہے، جس میں مغرب کی حمایت یافتہ کارروائیوں کے نتیجے میں 41 ہزار سے زائد معصوم فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
لیکن تروئیکا اور امریکہ اس صورتحال کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایران پر پابندیاں عائد کرنے والے ممالک، جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرتے ہیں، عالمی توجہ کو فلسطینی عوام کے قتل عام میں ان کی شمولیت سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے غزہ کی جنگ کے دوران اور اس سے پہلے صیہونی حکومت کو سب سے زیادہ مالی اور فوجی امداد فراہم کی ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2013 سے 2023 کے دوران صیہونی حکومت کو فراہم کیے جانے والے اسلحے کی نگرانی سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے سب سے زیادہ 65.6 فیصد اسلحہ فراہم کیا، جبکہ جرمنی 29.7 فیصد اور اٹلی 4.7 فیصد کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
غزہ میں حالیہ مظالم کے دوران امریکی اسلحے کی ترسیل میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو اس رپورٹ میں واضح نہیں۔
امریکی اور یورپی اسلحے کی یہ ترسیل، جو طوفان الاقصیٰ کے بعد سے بڑھ چکی ہے، مغربی عوام کی جانب سے اپنے حکومتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کا سبب بنی ہے۔
ان احتجاجات میں امریکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلباء کی جانب سے اپنے ملک کی حکومت کے غزہ جنگ سے متعلق موقف پر شدید اعتراضات شامل ہیں۔
مغربی سیاسی اور میڈیا حلقے ایران پر بے بنیاد الزامات عائد کر کے عالمی توجہ کو اپنی مجرمانہ کارروائیوں سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ایران اور یوکرین کے بحران کو موضوعِ بحث بنایا جا سکے۔
3. یوکرین کی مدد میں اضافہ کو جائز ٹھہرانے کا بہانہ
اسی روز، یعنی 20 ستمبر کو جب یورپ اور امریکہ نے ایران پر بے بنیاد پابندیاں عائد کیں، یوکرائن کے حکام نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی درخواستوں میں اضافہ کیا۔
مثال کے طور پر، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے چیف آف اسٹاف، آندری یرماک نے مغربی الزامات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ایران کی جانب سے روس کو مبینہ میزائل بھیجنے کے دعوے کے پیش نظر مغرب کو یوکرین کو روسی سرزمین پر حملے کے لیے دور مار میزائل فراہم کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔
یرماک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر مغربی ممالک سے درخواست کی کہ وہ روسی سرزمین پر فوجی اہداف کے خلاف مغربی ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دیں ۔
انہوں نے لکھا کہ ہمیں روسی سرزمین میں اہداف کے خلاف مغربی ہتھیار استعمال کرنے، مزید دور مار میزائل فراہم کرنے اور فضائی دفاعی نظام کو مضبوط کرنے کی اجازت کی ضرورت ہے۔
اگلے دن یعنی 21 ستمبر کو، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لمی کیف پہنچے اور اس دوران یوکرین کے لیے ایک نئے امدادی پیکج کا اعلان کیا گیا، جس کی مالیت 1.498 بلین ڈالر تھی، جس میں سے 717 ملین ڈالر واشنگٹن اور 781 ملین ڈالر لندن کی طرف سے فراہم کیے گئے۔
نتیجہ
یورپی ممالک، جو ہمیشہ عالمی سطح پر واشنگٹن کی پیروی کرتے ہیں، اس بار بھی امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف پابندیوں اور دباؤ کی مہم کے ذریعے ایران کی حکومت اور عوام کے درمیان دراڑیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ تہران اور ماسکو کے درمیان تعاون پر اثر ڈالا جا سکے۔
اس کے علاوہ، مغرب اس اقدام کے ذریعے عالمی توجہ کو اسرائیل کی غرب اردن اور غزہ میں جاری مظالم سے ہٹا کر ایران اور یوکرین کے بحران کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پابندیوں کی ساست کیسے خود امریکہ کے گلے پڑ گئی؟روسی سفیر کی زبانی
ساتھ ہی، ایران پر ڈرون، بیلسٹک میزائل اور دیگر ہتھیار روس کو بھیجنے کے الزامات عائد کر کے یوکرائن کو مغرب کی طرف سے دی جانے والی بھاری امداد، جیسے کہ 1.498 بلین ڈالر کا پیکج، کو جواز فراہم کیا جا رہا ہے، جو ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے اگلے ہی دن امریکی اور برطانوی وزرائے خارجہ کے کیف کے دورے کے دوران فراہم کیا گیا۔