سچ خبریں: معروف فلسطینی تجزیہ کار اور رأی الیوم اخبار کے چیف ایڈیٹر، عبدالباری عطوان نے اپنے تازہ ترین اداریے میں صیہونی حکومت کی جانب سے لبنان پر مسلسل جارحیت اور حزب اللہ کے ساتھ جاری جنگ کی سنگینی کو اجاگر کیا۔
عطوان نے اس بات کی طرف نشاندہی کی کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے ساتھ ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا ہے جو غزہ کی صورتحال سے یکسر مختلف اور تل ابیب کی سوچ سے زیادہ پیچیدہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لبنان کے ساتھ جنگ صیہونیوں کے لیے کیسی رہے گی؟اکونومسٹ میگزین کی زبانی
عطوان نے صیہونی فوج کی جانب سے لبنان پر پیر کے روز کیے جانے والے ہوائی حملوں کا ذکر کیا جہاں 350 سے زائد حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں 274 افراد شہید اور 1024 زخمی ہوئے، جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔
اس اداریے کے مطابق لبنان کی وزارت صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق شہداء کی تعداد 500 اور زخمیوں کی تعداد تقریباً 1700 تک پہنچ چکی ہے۔
مزید برآں، عطوان نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو، جو پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے،حزب اللہ کو تباہ کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے لہذا وہ ایک وسیع جنگ شروع کرنا چاہتا ہے تاکہ شمالی فلسطین سے بھاگنے والے 2 لاکھ سے زائد صیہونی شہریوں کو واپس لایا جا سکے لیکن اگر جنگ مزید پھیلتی ہے، تو صیہونی مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔
عطوان نے خبردار کیا کہ صیہونی حکومت کی جانب سے لبنان کے جنوبی اور مشرقی دیہاتوں نیز حزب اللہ کے مراکز پر وسیع پیمانے پر ہوائی حملے دراصل ایک بڑے زمینی حملے کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ اسرائیل اپنے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ ایک زمینی حملہ کرے، جسے فضائیہ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔
عطوان نے مزید کہا کہ اس طرح کے حملے جیسے کہ غزہ میں 7 اکتوبر کے بعد ہوئے، اب بیروت، اس کے ایئرپورٹ اور جنوبی ضاحیہ کے علاقوں میں بھی کیے جا سکتے ہیں۔
یہ پیشگوئی اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ اسرائیل کے حملے لبنان میں حزب اللہ کے مضبوط عوامی اور فوجی حمایت یافتہ مراکز کو نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن حزب اللہ کی مزاحمت بھی اس کے لیے تیار ہے۔
اس تجزیے کا اختتام حزب اللہ کی طرف سے اسرائیل کے شمال میں حائفہ اور صفد پر کیے جانے والے حملوں کے تذکرے پر کیا گیا، جس نے ثابت کیا کہ یہ حملے لبنان کے عوام اور مقاومت کو مرعوب نہیں کر سکتے اور حزب اللہ اپنی سرحدوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
فلسطینی تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے اپنے حالیہ اداریے میں کہا کہ جب عراق کی اسلامی مزاحمتی قوتوں نے جولان کی مقبوضہ چوکیوں پر حملے کیے، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ مزاحمت کی تمام قوتیں میدان میں ہیں اور اسرائیل کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گی۔
انہوں نے یمن کی طرف سے ایک بڑے سرپرائز کی پیش گوئی کی، جو نہ صرف ڈرون بلکہ بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ حملے کرے گا۔
گزشتہ ہفتے یمنی مزاحمت کی جانب سے تل ابیب پر کیے گئے میزائل حملے کا ذکر کرتے ہوئے، عطوان نے بتایا کہ اسرائیلی اور امریکی دفاعی نظام اس حملے کو ناکام بنانے میں ناکام رہے، اور یہ حملہ دراصل مستقبل میں آنے والے بڑے حملوں کا محض ایک آغاز تھا۔
عطوان نے مزید کہا کہ حزب اللہ، فلسطینی مزاحمت سے مختلف اور زیادہ تجربہ کار ہے، انہوں نے حزب اللہ کی موشکی طاقت اور ڈرون ٹیکنالوجی کا ذکر کیا، جس کے پاس 150000 سے زیادہ میزائل موجود ہیں، جن میں سے اکثر نہایت درست اور تباہ کن ہیں۔
مزید برآں، عطوان نے لبنانی عوام کی یکجہتی اور مزاحمت کے لیے ان کی حمایت کو اجاگر کیا، انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی افواج کی جانب سے لبنانی عوام کو گھروں سے نکلنے کی دھمکیوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور عوام مزاحمت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مزید پڑھیں: اسرائیل اور لبنان جنگ کی تازہ ترین صورتحال
انہوں نے ایک صیہونی تجزیہ کار کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تل ابیب بھی اسی طرح سے میزائل حملوں کا نشانہ بنے گا جیسے غزہ کے ارد گرد کے علاقوں پر حملے ہوتے ہیں، لیکن حزب اللہ کے میزائل بہت زیادہ طاقتور اور تباہ کن ہوں گے۔
آخر میں عطوان نے کہا کہ نیتن یاہو اپنی ناکامیوں کے بعد ایک اور شکست سے دوچار ہوں گے اور لبنان میں وہ ایک خونی دلدل میں دھنس جائیں گے۔