سچ خبریں: طوفان الاقصی آپریشن کی ایک سالہ سالگرہ ایسے وقت میں منائی جا رہی ہے جب آیت اللہ خامنہ ای مزاحمتی تحریک کے اس آپریشن کو اب بھی ایک درست، منطقی اور بین الاقوامی قانونی اقدام قرار دیتے ہیں، جو فلسطینیوں کے اپنے دفاع کے حق کے عین مطابق ہے۔
عملیات طوفان الاقصی کی ایک سالہ سالگرہ کے موقع پر یہ سوال اہمیت اختیار کر اور اس آپریشن کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟
یہ بھی پڑھیں: طوفان الاقصی نے صیہونی معیشت کے ساتھ کیا کیا؟
1. طوفان الاقصی کا مقصد اور وجوہات
7 اکتوبر 2023 فلسطینیوں کی صیہونی ریاست کے خلاف بغاوت کا دن ہے، اس دن، حماس کے مجاہدین نے زمین، ہوا اور سمندر کے راستے مقبوضہ علاقوں پر حملہ کیا، جبکہ غزہ کی پٹی گزشتہ 17 سال سے صیہونی محاصرے میں تھی۔ حماس کے مجاہدین نے 7 اکتوبر کو صیہونی ریاست کے فوجی اور انٹیلیجنس ڈھانچے کو ایسی ضرب لگائی جو اس 75 سالہ ریاست کی تاریخ میں بے مثال تھی۔
اس سلسلہ میں فلسطین کے امور کے ماہر طوفان الاقصی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آپریشن نے صیہونی ریاست کی کئی ریڈ لائنز کو پار کیا ہے۔
پہلی ریڈ لائن بڑی تعداد میں ہونے والے جانی نقصان سے متعلق ہے، دوسری ریڈ لائن تل ابیب کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی تھی، اور تیسری ریڈ لائن صیہونی ریاست کے انٹیلیجنس اور فوجی اعتبار کو چیلنج کرنے کی تھی۔
اس پس منظر میں طوفان الاقصی کی وجوہات کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے، تاہم اس آپریشن کی چند اہم ترین وجوہات مندرجہ ذیل نکات میں بیان کی جا سکتی ہیں:
الف: غزہ کی ناگفتہ بہ صورتحال
جعلی صیہونی ریاست، جو فلسطینی زمین پر قبضے کے ذریعے قائم ہوئی، نے فلسطینیوں کی زندگی کو دن بدن مزید دشوار بنا دیا۔ فلسطینیوں پر غیر انسانی حالات مسلط کیے گئے، جن میں زمینوں پر قبضے اور غیر قانونی صیہونی بستیاں بسانا شامل ہیں۔
ان بستیوں کی تعمیر کے نتیجے میں مزید فلسطینیوں کو اپنے گھر سے بے دخل کر دیا گیا، غزہ پر مسلسل 17 سالہ محاصرے نے وہاں کے لوگوں کو شدید دباؤ اور محرومیوں کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا، یہاں تک کہ غزہ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل بن گیا۔
غزہ کے بیمار لوگوں کو علاج کے لیے بھی باہر نکلنے کا راستہ میسر نہیں تھا اور انسانی امداد، خاص طور پر دوا، یا تو بالکل نہیں پہنچ پاتی تھی یا بہت کم پہنچتی تھی۔
یہ غیر انسانی حالات اور صیہونی ریاست کی مسلسل جارحیت فلسطینیوں کو مجبور کرتی رہی کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کریں، اور طوفان الاقصی اس مزاحمت کا عملی اظہار تھا۔
جهاد اسلامی فلسطین کے تہران میں نمائندے ناصر ابوشریف نے اس حوالے سے کہا کہ غزہ کی پٹی 17 سال سے محاصرے میں ہے، اس خطے کو 17 سال سے مکمل محاصرے میں رکھا گیا ہے اور امداد محض اتنی فراہم کی جاتی ہے کہ لوگ زندہ رہ سکیں۔
غزہ میں سماجی اور معاشی صورتحال بہت خراب ہے جہاں 60 فیصد فلسطینی بے روزگار ہیں اور 40 فیصد بچے اور نوجوان ہیں، صیہونی ریاست نے غزہ کے لوگوں پر متعدد جنگیں مسلط کیں جن میں ہزاروں لوگ شہید اور زخمی ہوئے، جبکہ لاکھوں کو بے گھر کر دیا گیا۔
حماس نے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد جاری کیے گئے ایک بیان میں ان جنگوں کو اس آپریشن کی ایک بڑی وجہ قرار دیا اور کہا کہ غزہ کی پٹی نے پانچ تباہ کن جنگوں کا سامنا کیا اور ہر بار اسرائیل اس جنگ کا آغاز کرنے والا تھا۔
سال 2000 سے ستمبر 2023 تک، قابض ریاست نے 11299 فلسطینیوں کو شہید کیا اور 156768 کو زخمی کیا، جن میں اکثریت غیر فوجی شہریوں کی تھی۔
ب: طوفان الاقصی، ایک بقا کی جنگ
غزہ کے لوگوں پر مسلط کیے گئے انسانی بحران کے علاوہ، صیہونی ریاست فلسطینیوں کے لیے ایک وجودی خطرہ بن چکی تھیم 75 سالوں کے دوران، قبضے کا عمل نہ رکا، بلکہ پوری فلسطینی سرزمین پر مکمل قبضے کی طرف بڑھا۔ صیہونی ریاست کے نئے حکومتی کابینہ میں شامل افراد، جیسے ایتمار بن گویر (وزیر داخلہ) اور اسموٹریج(وزیر خزانہ)، یہ مانتے ہیں کہ فلسطینیوں کو مکمل طور پر اپنے وطن سے بے دخل کر کے انہیں کسی دوسرے ملک میں منتقل کیا جانا چاہیے۔
اسی دوران، صیہونی ریاست نے بیت المقدس کی یہودی سازی میں شدت پیدا کر دی تھی، بیت المقدس فلسطینیوں کی دینی اور تاریخی شناخت کا محور ہے، لیکن صیہونیوں نے اس شہر کو یہودی رنگ دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ صیہونیوں نے مرحلہ وار فلسطینی ریاست کے قیام کے خواب کو مٹانے کی سازشیں کیں۔
حماس کے بیان کے مطابق، طوفان الاقصی آپریشن کی ضرورت اور اس کی وجوہات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ طوفان الاقصی آپریشن ایک ناگزیر قدم اور فلسطینی مسئلے کو مٹانے کی سازشوں کا فطری جواب تھا، یہ آپریشن تل ابیب کے منصوبوں، جن کا مقصد فلسطین پر مکمل کنٹرول اور مسجد الاقصی پر قبضہ تھا، کا سامنا کرنے کے لیے انجام دیا گیا۔ طوفان الاقصی کا مقصد غزہ کی ظالمانہ ناکہ بندی کو ختم کرنا اور قابضین سے نجات کی فطری راہ پر گامزن ہونا تھا۔
یہ آپریشن ایک مضبوط پیغام تھا کہ فلسطینی عوام اپنے حقوق اور مقدسات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھیں گے، چاہے انہیں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔
ج: انتہاپسند کابینہ کی تشکیل اور طوفان الاقصی کی تحریک
سال 2022 میں، بنیامین نتنیاہو کی سربراہی میں ایک انتہاپسند، نسل پرست اور تندرو کابینہ اقتدار میں آئی۔ یہ کابینہ، جسے 2019 سے لے کر 2022 تک پانچ بار انتخابات کے بعد تشکیل دیا گیا، فلسطینیوں کے لیے انتہائی مشکل اور جبر و استبداد کا نیا باب تھا۔ نتنیاہو کی قیادت میں اسرائیلی تاریخ کی سب سے زیادہ تندرو اور نسل پرست حکومت بنائی گئی، جس نے فلسطینیوں پر دباؤ میں بے پناہ اضافہ کیا۔ حتیٰ کہ خود وائٹ ہاؤس کے حکام نے بھی اس کابینہ کو اسرائیلی تاریخ کی سب سے انتہاپسند حکومت قرار دیا۔
نتنیاہو کی حکومت نے اپنے پہلے دن سے ہی فلسطینیوں اور مسلمانوں کے خلاف شدید نسل پرستانہ اور غیر انسانی پالیسیاں اپنائیں۔ فلسطینی علاقوں میں تشدد اور ظلم و ستم کے نئے سلسلے کا آغاز کیا گیا، خاص طور پر شیخ جراح محلے میں، جہاں فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور وہ لوگ جو اپنے گھروں کو صیہونیوں کے ہاتھوں فروخت کرنے سے انکار کر رہے تھے، روزانہ اسرائیلی فوج اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں ملوث ہو رہے تھے۔
اسرائیلی حکومت نے شیخ جراح اور دیگر فلسطینی علاقوں میں مکینوں کو بے دخل کرنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں، تاکہ صیہونی بستیوں کو پھیلایا جا سکے۔
کابینہ میں شامل انتہاپسند وزراء جیسے ایتمار بن گویر کی حمایت سے یہ ظلم اور بربریت مزید بڑھ گئی، صیہونی آبادکاروں، جنہیں دنیا کے بدترین اور سب سے زیادہ مجرم افراد میں شمار کیا جاتا ہے، نے فلسطینیوں کے خلاف جرائم اور تشدد میں اضافہ کیا۔ ان مظالم نے حماس کے مجاہدین کو طوفان الاقصی آپریشن کی تیاری کرنے پر مجبور کر دیا۔
یہ صورتحال فلسطینیوں، خاص طور پر غزہ کے باشندوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی تھی، اور اسرائیلی قبضے کے 75 ویں سالگرہ پر فلسطینی علاقے عملاً رہنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ حماس کے جنگجوؤں کا طوفان الاقصی آپریشن، اقوام متحدہ کے منشور کے مادہ 51میں درج حق دفاع کے عین مطابق تھا، جو کہ ایک جائز اور قانونی دفاعی اقدام تھا۔
د: فلسطینیوں کی عالمی برادری سے ناامیدی اور انصاف کے حصول میں ناکامی
عالمی نظام فلسطینی حقوق کے دفاع اور صیہونی ریاست کے جرائم کے خلاف موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہا ہے۔ غزہ کی مکمل جنگ اور محاصرے کے باوجود، نہ اقوام متحدہ اور نہ ہی عالمی طاقتوں نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا۔
صیہونی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف کیے گئے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، جن میں حقِ حیات جیسے بنیادی حقوق کی پامالی بھی شامل تھی، کو عالمی برادری نے نظرانداز کیا، جس سے بین الاقوامی تنظیموں اور عالمی طاقتوں کی طرف سے انسانی حقوق کے نفاذ میں کھلے عام امتیاز اور دوہرے معیار کا مظاہرہ ہوا۔
اس دوران، فلسطینیوں کے خلاف کئی سنگین جرائم، جیسے جبری بے دخلی، جلاوطنی، گھروں سے بے دخلی، مکانوں کی تباہی، روزگار کے ذرائع کا خاتمہ، غزہ میں دواؤں اور خوراک کی فراہمی میں رکاوٹیں، قتل و غارت، اور دانستہ بھوک کا شکار بنانا، مسلسل جاری رہا۔
نہ صرف عالمی طاقتوں نے فلسطینی حقوق کو نظرانداز کیا، بلکہ وہ صیہونی مفادات کے تحفظ کے لیے بھی مختلف اقدامات کرتے رہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، نے نسل پرستانہ معاملہ صدی (Deal of the Century) اور عرب ممالک کے ساتھ صیہونی ریاست کے تعلقات کو معمول پر لانے کے منصوبے کو فروغ دیا اور نافذ کیا۔
اس طرح، نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، بلکہ عالمی طاقتوں اور کچھ عرب ممالک کی حمایت سے صیہونی ریاست کو سیاسی اور سکیورٹی تنہائی سے نکالنے اور فلسطینی مسئلے کو پس منظر میں ڈالنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔
یہ صورتحال طوفان الاقصی آپریشن کے آغاز کی ایک اہم وجہ بنی۔ فلسطینی اس نتیجے پر پہنچے کہ عالمی برادری سے مایوسی کے بعد، انہیں اپنی سرزمین اور حقوق کی بازیابی کے لیے خود ہی کوئی بڑا اور فیصلہ کن قدم اٹھانا ہوگا۔
2. ایک سالہ جنگ کے نتائج
طوفان الاقصی کی ایک سالہ جنگ کے نتائج کو مختلف سطحوں پر بیان کیا جا سکتا ہے، جن میں داخلی سطح (دونوں فریقین کے لیے)، علاقائی اور عالمی سطح شامل ہیں۔
فریقین کے لیے جنگ کے نتائج
غزہ میں ایک سالہ جنگ نے حماس اور صیہونی ریاست دونوں کے لیے اہم نتائج چھوڑے ہیں، ان میں سے کچھ اہم درج ذیل ہیں:
الف: غزہ میں صیہونی ریاست کی نسل کشی
اسرائیلی ریاست نے بے رحمی اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ ایک سال میں 42000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا اور 96000 سے زائدکو زخمی کر دیا ہے۔
اس کے نتیجے میں 2 ملین سے زائد فلسطینی غزہ میں بے گھر ہو چکے ہیں، غزہ میں غربت، بھوک اور بیماریوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
یہ سنگین حالات ایسے وقت میں رونما ہوئے جب غزہ 2006 سے اب تک 17 سالہ مکمل محاصرےکا شکار ہے، ان واقعات نے فلسطینی خاندانوں پر گہری نفسیاتی ضرب لگائی ہے، خاص طور پر جب شہداء اور زخمیوں میں سے ایک تہائی خواتین اور بچے ہیں۔
ب: بنیادی ڈھانچے کی تباہی
غزہ میں ایک سالہ جنگ کے دوران اسرائیلی ریاست نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ ہسپتال، طبی مراکز، اسکول، گھر، مہاجر کیمپ، سڑکیں، اور دیگر بنیادی سہولیات اسرائیلی بمباری اور ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں برباد ہو چکے ہیں۔ ان تباہ شدہ بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر نو حماس کے لیے بہت بڑی مالیاتی چیلنج بن چکی ہے۔
ج: حماس کے کئی کمانڈروں کی شہادت
ایک اور اہم نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست نے حماس کے کئی کمانڈروں کو شہید کر دیا ہے، متعدد عسکری اور سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا اور انہیں شہید کیا گیا۔
تاہم، اس کے باوجود حماس باقی ہے، اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور فلسطینی عوام کی حمایت سے مستحکم ہے، مزاحمت اور جنگ کا راستہ ترک نہیں کیا گیا اور حماس ابھی بھی صیہونی ریاست کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
حماس کے رہنما یحییٰ السنوار کا فلسطینی مزاحمت کی حمایت کرنے والے ممالک اور رہنماؤں کو پیغامات بھیجنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا اسی تسلسل کا حصہ ہے۔
حماس نے ان تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے آپ کو ایک مضبوط مزاحمتی قوت کے طور پر پیش کیا ہے، جو عالمی برادری اور خطے میں فلسطینی مسئلے کی حمایت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
د: مسئلہ فلسطین کی عالمی سطح پر واپسی
ایک اہم ترین نتیجہ جو غزہ کی ایک سالہ جنگ کے دوران حماس اور فلسطینیوں کے حق میں آیا، وہ یہ ہے کہ فلسطینی حقوق کا مسئلہ ایک بار پھر عالمی ایجنڈا کا حصہ بن گیا ہے۔
جبکہ طوفان الاقصی سے پہلے فلسطینی مسئلہ یا تو فراموش کیا جا رہا تھا یا اسے عالمی سطح پر حاشیے پر دھکیلنے کی کوشش ہو رہی تھی، لیکن ایک سالہ جنگ اور صیہونی ریاست کی بے پناہ بربریت نے اس مسئلے کو دوبارہ عالمی سطح پر اجاگر کیا۔
کچھ ممالک، جیسے الجزائر اور جنوبی افریقہ نے صیہونی ریاست کے جرائم کو بین الاقوامی فوجداری عدالت اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں اٹھایا ہے، اور ان عدالتوں میں صیہونی ریاست کے جرائم کی تحقیقات جاری ہیں۔
ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مسئلہ پہلے سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ عالمی سطح پر اٹھایا جا رہا ہے، اور یہاں تک کہ یورپ اور امریکہ میں عوامی رائے عامہ بھی فلسطینیوں کے حق میں متحرک ہو چکی ہے۔
صیہونی ریاست کے لیے نتائج
غزہ کی ایک سالہ جنگ کے دوران صیہونی ریاست کو بھی اہم نتائج کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے کچھ اہم ترین درج ذیل ہیں:
الف: جنگی مقاصد میں ناکامی
صیہونی ریاست، جو طوفان الاقصی کے نتیجے میں معلوماتی اور فوجی ناکامی کا شکار ہوئی، ایک ناقابل مرمت شکست کا سامنا کر رہی ہے، جیسا کہ جیسا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ صیہونی ریاست کو فوجی اور معلوماتی دونوں محاذوں پر ایسی شکست کا سامنا ہوا ہے جو ناقابل مرمت ہے۔
روزنامہ گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کی جانب سے جاری کردہ ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی کو 16 سال سے محصور کرنے والی دیواریں اور باڑیں گر چکی ہیں، اور یہ منظر ناقابل تصور تھا۔” مزید ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوجی محاصرے میں ہیں اور ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔
جویش کرانیکل نامی صیہونی جریدے کے مدیر اعلیٰ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ اسرائیل کو فوجی اور انٹیلیجنس دونوں محاذوں پر بڑی شکست ہوئی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی ایسی صورتحال نہیں دیکھی۔
آیت اللہ خامنہ ای نے بھی اس سلسلہ میں کہا کہ اس مسئلے میں، غاصب صیہونی ریاست کو فوجی اور انٹیلیجنس دونوں سطحوں پر ناقابل مرمت شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ زلزلہ اتنا تباہ کن ہے کہ اس نے صیہونی ریاست کی حاکمیت کے کچھ بنیادی ڈھانچوں کو منہدم کر دیا ہے، اور ان کا دوبارہ تعمیر ہونا آسان نہیں ہے۔
یہ بہت بعید ہے کہ صیہونی ریاست، تمام شور و غوغا کے باوجود اور مغربی حمایت کے باوجود، ان ڈھانچوں کو دوبارہ تعمیر کر سکے۔ میں کہتا ہوں کہ 15 اکتوبر کے بعد، صیہونی ریاست وہ ریاست نہیں رہی جو پہلے تھی، اور یہ ضرب آسانی سے بھرنے والی نہیں۔
اس ایک سالہ جنگ نے نہ صرف فلسطینی مزاحمت کو مضبوط کیا بلکہ صیہونی ریاست کی فوجی اور انٹیلیجنس صلاحیتوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، جس کی بحالی انتہائی مشکل نظر آتی ہے۔
علاوہ از 7 اکتوبر کو ہونے والی شکست کے، صیہونی ریاست کو ایک سالہ جنگ کے دوران بھی سنگین تر فوجی اور انٹیلیجنس ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ صیہونی ریاست نے جنگ کے آغاز میں اپنے لیے تین واضح اہداف مقرر کیے تھے: صیہونی قیدیوں کی رہائی، حماس کا خاتمہ، اور غزہ کی پٹی کو غیر فوجی بنانا۔ لیکن ایک سال کے بعد، ان میں سے کوئی بھی ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔ درحقیقت، بنیامین نتنیاہو اور اس کی کابینہ کی جانب سے جنگ اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت کو بڑھانے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اس فوجی اور انٹیلیجنس کی شکست کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے جو کہ غزہ میں جنگ کے دوران ہوئی۔
ب: فوجی نقصانات
اگرچہ صیہونی ریاست نے غزہ میں نسل کشی کی ہے، لیکن خود اس کی فوج کو بھی بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اگست کے مہینے میں صیہونی فوج نے رپورٹ دی کہ جنگ کی بحالی وزارت، ہر ماہ اوسطاً 1000 سے زائد نئے زخمی فوجیوں کو قبول کر رہی ہے، اور اب تک 3700 سے زائد اسرائیلی فوجی معذور ہو چکے ہیں۔
صیہونی فوج نے جنگ کے گیارہویں مہینے تک اپنے ہلاک شدگان کی تعداد 710 فوجی اور افسران بتائی ہے، لیکن صیہونی ذرائع اور میڈیا کے مطابق حقیقی جانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔
عزالدین القسام بریگیڈ (حماس کا عسکری ونگ) کے فروری میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، جنگ کے آغاز سے اب تک 1108 سے زائد اسرائیلی فوجی گاڑیاں غزہ کی پٹی میں مزاحمتی فورسز کے ہاتھوں تباہ ہو چکی ہیں۔
ج: بھاری اقتصادی نقصان
غزہ میں ایک سالہ جنگ کے دوران صیہونی ریاست کو بڑے اقتصادی نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔ صیہونی حکام کے مطابق، جنگ کے اخراجات 2025 کے آخر تک 66 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے، جو کہ صیہونی ریاست کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا 12 فیصد سے زیادہ ہوگا۔ یہ تخمینہ اس بنیاد پر لگایا گیا ہے کہ اسرائیل صرف حزب اللہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہوگا، نہ کہ پورے خطے میں ایک مکمل جنگ میں۔
اگست میں صیہونی ریاست کا 12 ماہ کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.8 فیصد تک پہنچ گیا، جو کہ 21ویں صدی میں کووڈ-19 کے علاوہ سب سے بڑا مالی خلا ہوگا۔ اس مہینے میں، صیہونی وزارت خزانہ نے 2024 کے لیے اقتصادی نمو کی پیشگوئی کو 1.9 فیصد سے کم کر کے 1.1 فیصد کر دیا۔
اس کے علاوہ، صیہونی ریاست کی اقتصادی درجہ بندی بھی تیزی سے گر گئی ہے۔ موڈیز رینٹنگز نے اس سال دوسری بار صیہونی ریاست کی درجہ بندی کم کر دی، کیونکہ غزہ میں جنگ کے اخراجات اور حزب اللہ کے ساتھ بگڑتی ہوئی صورتحال نے تل ابیب کو بڑے اقتصادی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ موڈیز نے بیان میں کہا کہ اسرائیل کی موجودہ اقتصادی درجہ بندی سرمایہ کاری کے غیر موزوں درجے سے صرف تین سطحوں کی دوری پر ہے، اور صیہونی ریاست کا اقتصادی منظرنامہ منفی ہے۔
د: سیاسی اختلافات کا آشکار ہونا
غزہ کے خلاف ایک سالہ جنگ کے دوران صیہونی ریاست کے لیے ایک اور اہم نتیجہ یہ تھا کہ کابینہ کے اندر سیاسی اختلافات علنی ہو گئے۔ بارہا بنیامین نتنیاہو اور وزیر دفاع یوآو گالانت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ وزیروں کے درمیان، خاص طور پر ایتمار بن گویر (انتہاپسند وزیر داخلہ) اور دیگر وزیروں کے درمیان تنازعات بھی نمایاں ہو چکے ہیں۔ یہ اختلافات ظاہر کرتے ہیں کہ جنگ نے بھی ان سیاسی اختلافات کو کم نہیں کیا۔ اس کے علاوہ، ایک سالہ جنگ نے مقبوضہ علاقوں میں عوامی مظاہروں کو ختم کرنے کے بجائے مزید تقویت دی۔ جنگ کے بارہویں مہینے میں، تل ابیب میں نصف ملین سے زیادہ افراد نے نتنیاہو اور اس کی کابینہ کے خلاف مظاہرے کیے، جنگی پالیسیوں کی مخالفت کی، اور جنگ کے خاتمے اور صیہونی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
و: صیہونی ریاست کی اصلی اور بے نقاب حقیقت
دہائیوں سے صیہونی اور مغربی میڈیا نے اسرائیلی فوج کو "دنیا کی سب سے اخلاقی فوج” کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے،انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اسرائیل صرف مزاحمتی فورسز کو نشانہ بناتا ہے، لیکن غزہ میں جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کے مظالم کی تصاویر اور ویڈیوز دنیا بھر میں پھیل گئیں، جس نے آزاد سوچ رکھنے والے اور حقائق کو دیکھنے والے افراد کے لیے کوئی شک و شبہ نہیں چھوڑا۔
حتیٰ کہ مغربی دنیا کے بدترین ناقدین اور لبرل افراد بھی اس بات پر متفق ہو گئے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے کیے گئے وحشیانہ اقدامات کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس کے نتیجے میں، بڑی تعداد میں عالمی یہودی، حتیٰ کہ مقبوضہ علاقوں کے رہائشی، صیہونی ریاست سے منسوب ہونے پر شرمندگی محسوس کرنے لگے۔
مثال کے طور پر، یہودی مصنف اور کارکن آویگیل بارنال نے ایک ویڈیو میں کہا: "جب میں نے جانا کہ کہانی کا ولن ہم ہیں، تو میں نے اپنی اسرائیلی شہریت منسوخ کر دی۔”
دنیا بھر میں صیہونی ریاست کے خلاف بے مثال مظاہرے ہوئے، جن میں یورپ کے دل میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے، اور امریکہ میں طلبہ اور یونیورسٹی کے پروفیسرز نے فلسطین کی حمایت میں پرچم اٹھایا۔ ان مظاہروں نے واضح طور پر ثابت کیا کہ عالمی رائے عامہ نے صیہونی ریاست کا اصل اور بے نقاب چہرہ دیکھ لیا ہے۔
علاقائی سطح پر جنگ کے نتائج
ایک سالہ جنگ کے علاقائی سطح پر بھی اہم اور اسٹریٹجک نتائج دیکھے جا سکتے ہیں، جن میں سے کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں:
1. مزاحمتی تحریکوں کی مضبوطی: فلسطینی مزاحمت کی جدوجہد اور اس کی کامیابیوں نے خطے کی دیگر مزاحمتی تحریکوں کو بھی تقویت بخشی۔
2. عرب دنیا میں بیداری: جنگ نے عرب دنیا میں صیہونی ریاست کے خلاف بیداری کو دوبارہ جنم دیا اور فلسطینی مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
3. حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہوں کی متحرک قوت: جنگ کے دوران حزب اللہ سمیت دیگر علاقائی مزاحمتی گروہوں کی حمایت اور ممکنہ شمولیت نے اسرائیلی ریاست کو مزید کمزور کیا۔
یہ علاقائی اور عالمی نتائج اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت نے نہ صرف صیہونی ریاست کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ بین الاقوامی سطح پر اس کے اثرات کو بھی کافی حد تک متاثر کیا ہے۔
الف: فلسطینی-صیہونی جنگ کا ایک کثیر الجہتی جنگ میں تبدیل ہونا
پچھلی تمام فلسطینی-صیہونی جنگیں، بنیادی طور پر فلسطینیوں اور صیہونی ریاست کے درمیان ہی ہوتی تھیں۔ تاہم، اس بار فلسطینی مزاحمت کو مکمل طور پر محور مقاومت (مزاحمتی محور) کی حمایت حاصل تھی۔ نہ صرف فلسطینی مزاحمت، بلکہ حزب اللہ لبنان نے شمالی محاذ سے، یمنی مزاحمت نے بحیرہ روم کی طرف سے، اور عراقی مزاحمت نے خلیج فارس کی طرف سے صیہونی ریاست کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا، جس سے مزاحمتی محور کی یکجہتی اور صیہونی ریاست پر دباؤ دونوں کو ظاہر کیا گیا۔
اس طرح، پچھلے ایک سال کے دوران، صیہونی ریاست خود کو مزاحمتی قوتوں کے گھیراؤ میں پاتی ہے۔ یہ کثیر الجہتی جنگ، صیہونی ریاست کو مجبور کرتی رہی ہے کہ وہ اپنے فوجی دستوں کو جنوب اور شمال کے محاذوں میں تقسیم کرے۔
اس صورتحال کی وجہ سے نہ صرف غزہ کے ارد گرد کی بستیاں خالی کرائی گئیں، بلکہ شمالی فلسطین کے علاقوں، خاص طور پر الجلیل کے علاقے کو بھی مکمل طور پر خالی کرنا پڑا،صیہونی آبادکار، پہلی بار، خود بے گھر ہونے کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہوئے۔
مزید برآں، صیہونی ریاست کا ایک اہم اقتصادی مرکز، ایلات کا بندرگاہی شہر، لبنان، یمن اور عراق کی مزاحمتی قوتوں کے مسلسل میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنتا رہا۔
ب: ایران اور صیہونی ریاست کا براہ راست تصادم
غزہ کے خلاف ایک سالہ جنگ کا ایک اور اہم نتیجہ یہ تھا کہ جمهوری اسلامی ایران نے بھی مقبوضہ علاقوں کے خلاف براہ راست فوجی کارروائیاں کیں۔
صیہونی ریاست نے کئی بار کوشش کی کہ ایران کو براہ راست جنگ میں ملوث کیا جائے، تاکہ امریکہ بھی اس جنگ میں شامل ہو سکے۔ تاہم، ایران نے صبر و تحمل کی حکمت عملی اختیار کی تاکہ مغربی ایشیا (مشرق وسطیٰ) میں امن و استحکام مزید خراب نہ ہو۔
تاہم، صیہونی ریاست کی دو بڑی جارحیتوں کے بعد ایران نے مقبوضہ علاقوں کے خلاف فوجی کارروائیاں کیں۔ پہلا حملہ اس وقت ہوا جب ایران کے قونصل خانے پر شام میں حملہ کیا گیا اور کچھ ایرانی کمانڈروں کو شہید کر دیا گیا۔
دوسرا بڑا حملہ اس وقت ہوا جب شہید اسماعیل ہنیہ کو تہران میں اور شہید سید حسن نصراللہ اور جنرل نیلفروشان کو بیروت میں شہید کیا گیا۔ ان واقعات کے بعد، ایران نے مقبوضہ علاقوں کے خلاف براہ راست اور غیرمعمولی فوجی کارروائی کی۔
پہلا ایرانی حملہ ایک انتباہ تھا، جس میں تل ابیب کو یہ پیغام دیا گیا کہ ایران کے پاس مقبوضہ علاقوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔
جب ایران کے صبر کو صیہونیوں نے کمزوری سمجھا اور انہوں نے مزید جارحیت کی، تو ایران نے تل ابیب پر 200 میزائل داغے، جس نے صیہونی قیادت اور عوام کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہاں تک کہ نتنیاہو، جو اس وقت جشن منا منا رہا تھا، پہلا شخص تھا جو میزائلوں کی بارش کے دوران پناہ گاہ میں بھاگ گیا۔
یکم اکتوبر کو، ایران نے دوسری بار مقامات اسرائیلی کو نشانہ بنایا اور اس بار زیادہ جدید میزائلوں کا استعمال کیا۔ یہ حملہ بغیر کسی پیشگی انتباہ کے کیا گیا، جس سے ایران نے ظاہر کیا کہ وہ مغربی ایشیا میں واحد طاقت ہے جو صیہونی ریاست کے ساتھ براہ راست مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ان میزائل حملوں نے ایران کی اس صلاحیت کو ظاہر کیا کہ وہ مقبوضہ علاقوں پر حملہ کر سکتا ہے اور صیہونی دفاعی نظام کو مؤثر طریقے سے چکما دے سکتا ہے۔
یہ کارروائیاں غزہ کی ایک سالہ جنگ کے دوران اور مغربی ایشیا کے مستقبل میں امن اور استحکام کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی ہیں۔
جمهوری اسلامی ایران نے جب اپنے جدید ابرفراصوت میزائل مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر برسائے تو یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایک ایسا ملک، جس کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں، نے جوہری ہتھیار رکھنے والے ملک کے خلاف وسیع فوجی کارروائی کی۔
ایران کے اس حملے میں صیہونی ریاست کے اہم اہداف، جیسے موساد کا ہیڈکوارٹر، عسقلان کی گیس فیلڈ، نواتیم کا فوجی اڈہ، اور F-35 جنگی طیارے شامل تھے۔
اس کارروائی نے بنیامین نتنیاہو کے دعووں کو بے نقاب کر دیا کہ مزاحمت اور ایران کا خطے میں کوئی مقام نہیں ہے۔ ایران کی یہ کارروائی ثابت کرتی ہے کہ مغربی ایشیا میں کوئی نیا نظام اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک مزاحمت اور جمهوری اسلامی ایران کو اس میں نمایاں مقام نہ دیا جائے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے بھی 13 مهر کے نماز جمعہ کے خطبے میں یہ واضح کیا کہ ایران کو صیہونی ریاست کے ساتھ براہ راست جنگ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: ہمارے مسلح افواج نے جو کام کیا، وہ غاصب صیہونی ریاست کے حیرت انگیز جرائم کے مقابلے میں کم از کم سزا تھی۔ جمهوری اسلامی ایران اپنی ذمہ داریوں کو طاقت، صلابت، اور قاطعیت کے ساتھ انجام دے گا۔
نہ ہم کسی بھی قسم کی تاخیر یا کوتاہی کریں گے، نہ جلدبازی کریں گے۔ جو کچھ منطقی اور درست تھا، سیاسی اور فوجی حکام نے کیا، اور اگر مستقبل میں بھی ضرورت پڑی تو وہی کیا جائے گا۔”
عالمی سطح پر جنگ کے نتائج
غزہ میں ایک سالہ جنگ کے دوران کئی اہم عالمی نتائج بھی سامنے آئے، جن میں سے چند اہم ترین درج ذیل ہیں:
الف: اقوام متحدہ اور خاص طور پر سلامتی کونسل کی ساکھ کا خاتمہ
صیہونی ریاست کی غزہ میں نسل کشی اور لبنان میں مظالم، جن میں ضاحیہ جنوبی پر ایک ہی لمحے میں 80 ٹن بم برسانا اور حزب اللہ کے رہنماؤں کو نشانہ بنانا شامل ہے، نے ثابت کیا کہ اقوام متحدہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام ہو چکی ہے۔
ویٹو پاور دنیا میں انصاف اور امن کے قیام کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن گئی ہے، اور حقوق بشر کا مغربی طاقتوں کے لیے کوئی حقیقی معنی نہیں رہا۔
اس ایک سالہ جنگ کے دوران صیہونی ریاست کی نسل کشی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک بھی مذمتی قرارداد منظور نہیں کی جا سکی۔
سلامتی کونسل کے غیر مستقل اراکین نے غزہ میں صیہونی مظالم کو روکنے اور امن کے قیام کے لیے پہل کی، لیکن امریکہ کے بار بار ویٹو نے کسی بھی سنجیدہ قرارداد کو منظور ہونے سے روک دیا۔
غزہ کے حالات نے یہ واضح کر دیا کہ اقوام متحدہ مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، کے ہاتھوں میں ایک آلہ کار بن چکی ہے اور یہ ادارہ اتنا بے بس ہو چکا ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔
غزہ میں ہونے والی نسل کشی نے ثابت کیا کہ مغربی ایشیا دنیا کا سب سے زیادہ حقیقت پسندانہ (رئیلسٹک) خطہ ہے، جہاں صرف فوجی طاقت کے ذریعے ہی سلامتی اور استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس نسل کشی نے عالمی برادری کو شرمندہ اور بے وقعت کر دیا ہے، اور بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں میں درج اخلاقی اور انسانی اقدار کو بری طرح سوالات کے گھیرے میں لے آیا ہے۔
ب: امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی حکمت عملی میں تبدیلی
غزہ کے خلاف ایک سالہ جنگ کا ایک اور اہم نتیجہ یہ تھا کہ اس جنگ نے امریکہ کے انسانی حقوق کے دعوؤں کو بے نقاب کیا اور اس کی توجہ کو دوبارہ مغربی ایشیا (مشرق وسطیٰ) کی طرف مبذول کر دیا۔
حالیہ برسوں میں، امریکہ نے مغربی ایشیا سے اپنی فوجی موجودگی کم کرنے اور مشرقی ایشیا اور چین کے ساتھ مقابلے پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی تھی۔
تاہم، ایران اور صیہونی ریاست کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ اور جنگ کی وجہ سے، امریکہ کو مجبوراً اپنی فوجی موجودگی مغربی ایشیا میں دوبارہ بڑھانی پڑی تاکہ صیہونی ریاست کو ایران اور حزب اللہ کے حملوں سے بچایا جا سکے۔
اگر ایران، حزب اللہ اور صیہونی ریاست کے درمیان کشیدگی مکمل جنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے، تو امکان ہے کہ واشنگٹن اس جنگ میں براہ راست شریک ہو کر صیہونی ریاست کی مدد کرے۔
تاہم، یہ جنگ دیگر امریکی جنگوں سے مختلف ہوگی کیونکہ جمهوری اسلامی ایران نے نہ صرف اپنی جرات، بلکہ امریکہ اور صیہونی ریاست کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنانے کی اپنی صلاحیت بھی ثابت کر دی ہے۔
حالانکہ امریکہ ایک اور مہنگی جنگ سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس نے اب تک یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ صیہونی ریاست کو جارحیت سے روکنے میں ناکام ہے۔
جیسے جیسے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات قریب آ رہے ہیں، بائیڈن انتظامیہ مغربی ایشیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہے، گویا وہ "لنگڑی بطخ” کی مانند عمل کر رہی ہو۔
نتیجہ
طوفان الاقصی کی ایک سالہ سالگرہ کے موقع پر، آیت اللہ خامنہ ای نے اسے ایک "درست، منطقی اور بین الاقوامی قانونی اقدام” قرار دیا ہے، جو فلسطینیوں کے اپنے حق دفاع کے عین مطابق ہے۔
ایک سال بعد، مغربی ایشیا میں ایران کی صیہونی ریاست کے خلاف براہ راست فوجی کارروائیوں کے ساتھ صورت حال مزید شدت اختیار کر چکی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ مغربی ایشیا میں ہونے والے واقعات مزید شدت اختیار کریں گے، اور صیہونی ریاست کی محور مقاومت کے خلاف جارحیت کے تسلسل کے ساتھ ساتھ، تل ابیب اور ایران کے درمیان ممکنہ تصادم کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
یہ تصادم صیہونی ریاست کی اسٹریٹجک کمزوریوں کو مزید آشکار کرے گا، جس کی گہرائی اور پائیداری پہلے سے ہی کمزور ہو چکی ہے۔