سچ خبریں: حزب اللہ کے جدید اور ترقی پذیر ڈرونز جو اکثر مشترکہ حملوں میں استعمال ہوتے ہیں، موجودہ جنگ اور آئندہ مراحل میں صیہونیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق 25 اگست کی صبح حزب اللہ نے اعلان کیا کہ اس نے بڑی تعداد میں ڈرونز اور میزائلوں سے مقبوضہ فلسطین کے اندرونی علاقوں پر حملہ کیا۔
اس حملے میں حزب اللہ کے میزائلوں نے شمالی مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ جولان میں صیہونی 11 فوجی اڈوں اور چھاؤنیوں کو نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونیوں پر حزب اللہ کے ڈرونز کا خوف طاری
چند گھنٹے بعد حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ لبنانی مزاحمت نے صیہونی دشمن کے اسٹریٹجک فوجی اڈے “گلیلوت” کو متعدد ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا ہے، جو اس حکومت کا سب سے اہم جاسوسی اور انٹیلی جنس مرکز ہے۔
حزب اللہ کے ڈرونز کی مختصر تاریخ
صیہونی مقامات پر کیے جانے والے حزب اللہ کے حالیہ ڈرون حملے لبنانی مزاحمت کی پہلی ڈرون کارروائی نہیں تھی اور یقیناً یہ آخری بھی نہیں ہوگی۔
شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ صیہونی دشمن تنظیموں میں ڈرون کے ذریعے گہرائی تک نفوذ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس نفوذ کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے ہمیں 20 سال پہلے جانا ہوگا، جب حزب اللہ کے پہلے ڈرونز نومبر 2004 میں جاسوسی مقاصد کے لیے مقبوضہ علاقوں کی فضائی حدود میں داخل ہوئے ، جس سے صیہونی انٹیلی جنس سروسز حیران رہ گئیں۔
اس وقت حزب اللہ کا ڈرون “مرصاد 1” 20 منٹ تک شمالی مقبوضہ فلسطین میں الجلیل کے مغربی علاقے کی فضاؤں میں پرواز کرتا رہا اور پھر بغیر کسی رکاوٹ کے لبنان واپس آگیا۔
حزب اللہ نے اعلان کیا کہ یہ ڈرون 40 سے 50 کلوگرام دھماکہ خیز مواد کے ساتھ مقبوضہ فلسطین کی گہرائی تک نفوذ کرنے میں کامیاب ہوا ۔
دوسری ڈرون کارروائی اپریل 2005 میں ہوئی جب مرصاد 1 نے مقبوضہ علاقوں کے 25 کلومیٹر اندر تک پرواز کی اور صیہونی ریڈاروں کے ناکام رہنے کے بعد بحفاظت لبنان واپس آگیا۔
تیسری کارروائی اگست 2006 میں ہوئی، جب حزب اللہ کے “ابابیل” حملہ آور ڈرونز، جو ہر 40 سے 50 کلوگرام دھماکہ خیز مواد لے کر مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوئے۔
اس دور میں، حزب اللہ کے ڈرونز چھوٹے سائز کے اور نسبتاً سست تھے اور نچلی سطح پر پرواز کرتے تھے، جس کی وجہ سے صیہونی ریڈاروں کے لیے انہیں پکڑنا مشکل تھا۔
حزب اللہ کے ڈرونز کا صیہونیوں کی جوہری تنصیبات تک نفوذ
حزب اللہ کی اصل ڈرون طاقت اکتوبر 2012 میں سامنے آئی، جب یہ ڈرونز لبنان سے بحیرہ روم کے اوپر پرواز کرتے ہوئے جنوب کی طرف مقبوضہ فلسطین کے اندر 50 کلومیٹر تک النقب کی طرف گئے اور دیمونا کے قریب، جو صیہونیوں کی جوہری ہتھیاروں کی تنصیبات کا مرکز ہے، نفوذ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اُس وقت صیہونی میڈیا نے اطلاع دی تھی کہ حزب اللہ کے ڈرونز نے اس کے جوہری تحقیقی مراکز کی تصاویر حاصل کیں۔
سال 2014 میں امریکی سائنسدانوں کی کمیٹی نے ایک مقالے میں یہ اعلان کیا کہ مستقبل میں حزب اللہ کے ڈرونز جاسوسی کے مشن انجام دیں گے تاکہ فوجی نقل و حرکت اور تنصیبات کی معلومات اکٹھی کی جا سکیں، میزائل حملوں کی تیاری کی جا سکے اور میزائلوں کے ہدف کی نشاندہی کو مزید بہتر کیا جا سکے۔
کچھ سال بعد اس امریکی کمیٹی کی پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئیں اور حزب اللہ نے اپنے ڈرونز کی صلاحیتوں کو نمایاں طور پر بہتر کرنے پر توجہ دی، اس میں خصوصی طور پر جاسوسی ڈرونز کی ترقی شامل تھی، جن پر جدید کیمرے اور انتہائی حساس سینسرز نصب ہیں، جن میں نوری اور انفراریڈ کیمرے بھی شامل ہیں۔
ان کی مدد سے یہ ڈرونز زیادہ درستگی کے ساتھ نگرانی کر کے معلومات اکٹھی کرنے کے قابل بن گئے ہیں۔
حزب اللہ کے ہدہد ڈرونز کا صیہونیوں کے قلب پر حملہ
دو دہائی قبل، جولائی 2006 کی جنگ کے دوران شاید کسی نے یہ تصور نہیں کیا ہوگا کہ حزب اللہ 2024 میں فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں اپنے ڈرونز کے ذریعے حیرت انگیز اور جدید حملے کر کے طویل ویڈیوز جاری کرے گا، جن میں صیہونی ریاست کے اہم ترین فوجی اور شہری علاقوں کی تفصیلی تصاویر شامل ہوں گی۔
یہ سب اس طرح ہوا کہ دشمن کا دفاعی نظام ڈرونز کی آمد کا پتہ بھی نہ لگا سکا۔
یہاں “ہدہد” ڈرون کی بات کی جائے تو یہ ڈرون حیفا اور مقبوضہ جولان کے مختلف علاقوں میں داخل ہوکر صیہونی دشمن کے اہم اور اسٹریٹیجک مقامات کی حساس معلومات اور تصاویر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوا۔
اس ڈرون میں 8 موٹرز ہیں، ہر بازو میں تین پروپیلر لگے ہیں اور اس کی زیادہ سے زیادہ رفتار 70 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
ہدہد ڈرون کی صلاحیتیں مزید واضح کرتی ہیں کہ یہ عمودی طور پر ٹیک آف اور لینڈنگ کر سکتا ہے، یہ ایک برقی ڈرون ہے جس کی لمبائی تقریباً 150 سینٹی میٹر ہے اور اس کے پروں کا پھیلاؤ 190 سینٹی میٹر تک ہے۔
اس کے چھوٹے حجم اور خاموشی کی وجہ سے دشمن کے ریڈار اسے آسانی سے نہیں پکڑ پاتے، یہ ڈرون ایک سے ڈیڑھ گھنٹے تک 30 کلومیٹر کی مسافت طے کر سکتا ہے۔
حزب اللہ نے اپنی مواصلاتی نظام میں بھی ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ معیار کے ڈرونز حاصل کیے ہیں، جس سے ڈیٹا کو فوری طور پر اپنے کمانڈ مراکز تک پہنچانا ممکن ہوگیا ہے۔
یہاں تک کہ اگر ڈرون تباہ بھی ہو جائے، تب بھی مشن کی تکمیل اور ڈیٹا کی منتقلی میں رکاوٹ نہیں آتی۔
چند ہفتے قبل صیہونی ریاست کے ایک سکیورٹی تحقیقی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ حزب اللہ نے ایسے ڈرونز کا استعمال شروع کیا ہے جو نہ صرف معلومات اکٹھا کر سکتے ہیں بلکہ میزائل بھی فائر کر سکتے ہیں۔
تل ابیب میں خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ حزب اللہ کے بڑھتے ہوئے ڈرون حملوں کا سامنا صیہونی فوج کے دفاعی نظام سے نہیں ہو پا رہا۔
حزب اللہ کی فضائی حکمت عملی اور جدید مشترکہ حملے
حزب اللہ عام طور پر اپنے بڑے آپریشنز میں صرف ڈرونز کا استعمال نہیں کرتا، بلکہ عموماً مشترکہ حملے کرتا ہے۔
حزب اللہ کے فضائی ہتھیاروں کی تنوع اس کی بنیادی حکمت عملی کا حصہ ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ لبنانی مزاحمت کا فوجی پروگرام مشترکہ آپریشنز پر مرکوز ہے، جہاں مختلف قسم کے میزائل اور ڈرونز استعمال کیے جاتے ہیں۔
مشترکہ آپریشنز ایک جنگی حکمت عملی ہے جس میں مختلف قسم کے جنگی ہتھیاروں کو ایک موثر نتیجے تک پہنچنے کے لیے اکٹھا کیا جاتا ہے، جس سے دشمن کی دفاعی صلاحیتوں کو محدود کیا جاتا ہے۔
حزب اللہ نے “طوفان الاقصی” کی جنگ میں صہیونی دشمن کے خلاف اس حکمت عملی کو اس طرح استعمال کیا کہ پہلے ڈرونز کا استعمال دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو الجھانے کے لیے کیا جاتا ہے، اور اس کے بعد میزائل حملے شروع ہوتے ہیں۔
اس حکمت عملی کی وجہ سے صہیونی فوج کے دفاعی نظام کے لیے ان حملوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
“جیمز راجرز” جو کہ ڈنمارک کی یونیورسٹی میں جنگی مطالعات کے پروفیسر ہیں، ایک تحقیق میں کہتے ہیں کہ مشترکہ حملوں کا مقصد دشمن کے دفاعی نظام پر تکنیکی اور حکمت عملی کے لحاظ سے قابو پانا ہے۔
یہی وہ اہم وجہ ہے جس نے ابتدا ہی سے حزب اللہ کو ڈرون جنگ پر توجہ دینے پر مجبور کیا،کیونکہ تجارتی ڈرون ٹیکنالوجی، جغرافیائی پوزیشننگ سسٹم، ڈرون کنٹرول پروگرامز، اور قابل ترتیب فریکوئنسیز کی دستیابی نے اس کے لیے ترقی کی راہیں کھول دی ہیں۔ اس لیے حزب اللہ نے ہر ممکنہ ذرائع سے اپنے ڈرونز کو بہتر اور موثر بنانے کے لیے کوشش کی ہے۔
جیمز راجرز اپنی تحقیق میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ڈرونز کی ترقی میزائلوں کی نسبت زیادہ آسان ہے اور یہ بہت تیزی سے خودکار ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ یہ انسان کے بغیر اپنے مشنز کو انجام دے سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: حزب اللہ کے ڈرونز کے بارے میں صیہونی فوج کے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟
اس تحقیق کے مطابق، 2040 تک حزب اللہ، انصار اللہ اور دیگر گروپس مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کی ترقی کی وجہ سے اپنے ڈرونز کو مکمل خودکار بنا سکیں گے، جو ان کے دشمنوں کے لیے ایک شدید خطرہ ثابت ہوگا۔
حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروپوں کے منصوبہ ساز اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ ہر ممکنہ ذریعہ استعمال کر رہے ہیں، چاہے وہ اندرونی نوآوری ہو یا دوست ممالک سے درآمدات اور مدد، تاکہ اپنے ڈرونز کو بہتر سے بہتر بنا سکیں۔