سچ خبریں: غزہ کی پٹی میں باقی رہ جانے والے 103 قیدیوں کی عدم واپسی اسرائیل کے تمام سیاسی، سیکیورٹی اور فوجی حکام کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کی مہر ثابت ہو سکتی ہے۔
غزہ میں 6 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں ملنے کے بعد، مقبوضہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں، جن میں نتن یاہو سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مصر کی سرحد کے قریب اسرائیلی افواج کی موجودگی کے شرط سے دستبردار ہو جائیں، خاص طور پر فیلادلفیا محور کے حوالے سے۔
یہ بھی پڑھیں: تل ابیب کی سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے؟
دوحہ اور قاہرہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے ملنے والی معلومات کے مطابق، فریقین تقریباً تمام نکات پر اتفاق کر چکے ہیں اور صرف ان کی عملی تفصیلات پر بات چیت جاری ہے۔
تاہم، نتن یاہو کی طرف سے سرحدی علاقوں سے اسرائیلی فوج کے انخلا سے انکار کی وجہ سے حماس نے قابضین کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدے کو مسترد کر دیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے کہ وہ اقوام متحدہ کی قرارداد 2735 کو بغیر کسی شرط کے قبول کرے۔
یہ متنازعہ مسئلہ صرف حماس یا ثالثی کردار ادا کرنے والے فریقین تک محدود نہیں رہا، بلکہ اسرائیلی سیکیورٹی سروسز کے سربراہان اور فوجی کمانڈر بھی قیدیوں کی خراب صورتحال کے پیش نظر اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ تل ابیب کے پاس مزید وقت نہیں بچا ہے اور قیدیوں کو زندہ واپس لانے کے لیے فوری طور پر جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنا ضروری ہے۔
نتن یاہو اور اسرائیلی کابینہ کے دیگر اراکین کے درمیان سب سے بڑا اختلاف، اسرائیلی افواج کی “نتساریم کوریڈور” اور “فیلادلفیا محور” میں موجودگی پر ہے۔
نتن یاہو کا کہنا ہے کہ یہ علاقے حماس کے لیے اہم راستے ہیں، اور اگر یہ فوجی کنٹرول میں نہ رہے تو اسرائیل کی حالیہ مہینوں کی تمام کامیابیاں ضائع ہو جائیں گی۔
حال ہی میں کابینہ کے اجلاس میں نتن یاہو نے ارکان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک ایسے منصوبے کی منظوری دیں جس میں مختلف منظرناموں کے تحت “فیلادلفیا محور” میں اسرائیلی افواج کی موجودگی کو برقرار رکھا جائے۔
اس ووٹنگ میں وزیر دفاع یوآف گالانت نے “نا منظور” اور بن گویر نے “غیر جانبدار” ووٹ دیا۔ جبکہ نتن یاہو اس شرط پر اصرار کر رہے ہیں، موساد اور شین بیت کے سربراہان، “داوید بارنع” اور “رونان بار” کا ماننا ہے کہ اس صورتحال کا جاری رہنا اسرائیلی قیدیوں کی جانوں کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
ایک اور اہم اختلاف جو صہیونی رہنماؤں کے درمیان پایا جاتا ہے، وہ نتن یاہو اور گالانت کے درمیان آزاد کیے جانے والے قیدیوں کی تعداد پر اختلاف ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کا ماننا ہے کہ اگر بڑی تعداد میں فلسطینی قیدی، خاص طور پر سیاسی رہنما اور فوجی کمانڈر رہا کیے گئے تو اسرائیل کی داخلی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
دوسری طرف، اسرائیلی وزیر جنگ کا موقف ہے کہ تل ابیب کے پاس اس معاملے کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے تاکہ کسی معاہدے تک پہنچا جا سکے۔
یہ اختلاف فلسطینی قیدیوں کی جلاوطنی کے مسئلے میں بھی نظر آتا ہے۔ دائیں بازو کے صہیونی رہنما چاہتے ہیں کہ آزاد شدہ قیدیوں کو یورپی ممالک، ترکی یا قطر جلاوطن کیا جائے، تاہم گالانت اور سیکیورٹی حکام کا خیال ہے کہ اس اقدام سے مستقبل میں اسرائیل کو بین الاقوامی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
نتن یاہو، گالانت، بارنع (موساد کے سربراہ) اور بار (شین بیت کے سربراہ) کے درمیان اختلاف کی بنیادی وجہ ان کی ترجیحات میں فرق ہے۔
نتن یاہو میدان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو برقرار رکھنے اور اپنی کابینہ کو گرنے سے بچانے پر زور دیتے ہیں، جبکہ فوجی کمانڈرز اور سیکیورٹی افسران بین الاقوامی دباؤ کے تحت زیادہ لچک دکھانے اور ایسے معاہدے تک پہنچنے کے حق میں ہیں جو تمام فریقوں کے مفادات کو پورا کرے۔
نیتن یاہو نے اپنے وزراء کے درمیان واضح طور پر کہا ہے کہ اگر انہیں قیدیوں کی رہائی اور فیلادلفیا کوریڈور کے درمیان انتخاب کرنا پڑا تو وہ بلا شبہ دوسرا آپشن منتخب کریں گے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ موساد کے سربراہ نے ایک قیدی کی ماں سے ملاقات کے دوران کہا کہ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ نتن یاہو کی حکومت میں قیدیوں کا تبادلہ ممکن ہو سکے۔
6 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں ملنے کے بعد، یکم ستمبر کی شام کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں 350,000 سے زائد افراد سڑکوں پر نکل آئے تاکہ نتن یاہو کو اپنا اختلاف ظاہر کریں اور حماس کے ساتھ جلد از جلد معاہدہ کرنے کا مطالبہ کریں۔
گزشتہ 10 ماہ کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب نتن یاہو کو امریکہ یا عوامی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، تو وہ بیرونی بحران پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنے مخالفین اور ناقدین کی توجہ بٹائی جا سکے۔ ایران کے دمشق میں قونصل خانے پر غیر قانونی حملہ اور شہید ہنیہ کا قتل ایسے وقت میں پیش آئے جب نتن یاہو پر غزہ میں جنگ بندی اور تنازعے کو ختم کرنے کے لیے شدید دباؤ تھا۔
اس بنیاد پر ضروری ہے کہ مزاحمتی نیٹ ورک کے ارکان نتن یاہو کے سیاسی رویے کو سمجھتے ہوئے مکمل تیار رہیں اور صہیونیوں کو نئی مہم جوئی کا موقع نہ دیں۔
دوسرے الفاظ میں، لیکود پارٹی کے رہنما ممکنہ طور پر مزاحمتی رہنماؤں کے قتل یا لبنان میں حماس کے مراکز پر حملے کے احکامات جاری کر کے علاقائی تناؤ کو بڑھانے اور قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات کو پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
خلاصہ
غزہ کی پٹی میں باقی رہ جانے والے 103 اسرائیلی قیدیوں کی عدم واپسی اسرائیلی سیاسی، سیکیورٹی اور فوجی حکام کے سیاسی کیریئر کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔
اس وقت کچھ قیدیوں کے خاندان جو اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں، اسرائیلی رہنماؤں کو ان کی موت کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں، اور ممکن ہے کہ وہ نتن یاہو کو جسمانی طور پر ہٹانے کی کوشش کریں۔
اسرائیل میں یونیورسٹیوں سے لے کر بن گورین ایئرپورٹ تک ہونے والی عام ہڑتال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسرائیلی معاشرہ نتن یاہو کے خلاف شدید غصے میں ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عوامی رائے عامہ کے بھڑکنے کے ساتھ، بائیڈن انتظامیہ ایسے ذرائع استعمال کر سکتی ہے جو تل ابیب پر دباؤ ڈالیں کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرے، اگرچہ امریکہ اسرائیل کے جرائم میں شریکِ جرم ہے اور اس نے غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف بدترین جرائم میں تعاون کیا ہے۔
جنگ بندی کے معاہدے میں سب سے بڑی رکاوٹ نتن یاہو کا اپنی کابینہ کے گرنے کا خوف اور “نیشنل پاور پارٹی” کے سربراہ بن گویر کا حکومت سے علیحدگی کا امکان ہے۔
اگرچہ حالیہ معاریو اخبار کے سروے میں نتن یاہو کو متوقع انتخابات میں اچھی کامیابی کی امید ہے، لیکن پھر بھی ان کی اور ان کے اتحادیوں کی دوبارہ کامیابی کے لیے بہت سے شکوک و شبہات موجود ہیں۔ ایسے حالات میں۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ نتن یاہو امریکہ اور عوامی رائے سے کسی قسم کی یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر وہ جنگ بندی کو قبول کر لیں اور کابینہ گرجائے تو نہ صرف انہیں بدعنوانی کے کیس میں گرفتار نہ کیا جائے، بلکہ وہ آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہ سکیں۔